تحریک عدم اعتماد کیلئے سادہ اکثریت ضروری‘حکومت کے پاس180، اپوزیشن کی 162سیٹیں

اسلام آباد(رپورٹ:رانا فرحان اسلم)قائد حزب اختلاف کو حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے سادہ اکثریت کی ضرورت ہے ایوان زیریں (قومی اسمبلی)میںحکومت کے پاس180جبکہ اپوزیشن کے پاس 162سیٹیں ہیں دونوں کے مابین صرف18سیٹوں کا فرق ہے ایوان بالا (سینیٹ ) میںحکومت کے پاس48جبکہ اپوزیشن کے پاس 51اراکین ہیںاور اپوزیشن کو 3سیٹوں کی برتری حاصل ہے اسی طرح پنجاب اسمبلی کی بات کی جائے تو 199اراکین حکومتی اتحاد کا حصہ جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی تعداد 172ہے پنجاب اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین 27سیٹوں کا فرق ہے اگر حکومت کی اتحادی جماعتیں اپوزیشن کا ساتھ دینے پر راضی ہو جائیں تو وزیر اعظم،اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ یا وزیر اعلی پنجاب کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان موجود ہے ۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کیجانب سے حکومت مخالف تحریک اوربالخصوص تحریک عدم اعتماد کیلئے کافی تحریک نظر آ رہی ہے ۔ قومی اسمبلی کی موجودہ صورتحال کے مطابق 342کے ایوان میںپاکستان تحریک انصاف 156 ،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 7،مسلم لیگ (ق)5،بے اے پی 5،جی ڈی اے 3،عوامی مسلم لیگ 1،جمہوری وطن پارٹی 1اور 2آزاد اراکین ملا کر حکومت اتحاد کی کل تعداد180ہے اسی طرح سینیٹ میں 104کے ایوان میں چار سینیٹرز کی ریٹائرمنٹ اور اسحاق ڈار کے حلف نہ لینے کیوجہ سے 99سینیٹرز ایوان بالا (سینیٹ)کا حصہ ہیںجس میں مجموعی طور پر 48اراکین حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں پاکستان تحریک انصاف 28،بی اے پی 12، ایم کیو ایم پاکستان 3،جی ڈی اے ،مسلم لیگ (ق)کا ایک ایک اور 3 آزاد اراکین شامل ہیں اسی طرح اپوزیشن اتحاد میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 21 ،مسلم لیگ (ن)کے18،جمعیت علماء اسلام (ف)5،عوامی نیشنل پارٹی 2،نیشنل پارٹی 2،بی این پی (مینگل)1،جماعت اسلامی اور پشتون ملی عوامی پارٹی کے ایک ایک سینیٹر شامل ہیںجبکہ پنجاب اسمبلی میں371کے ایوان میںحکومتی اتحاد میں 199جبکہ اپوزیشن کی 172سیٹیں ہیںپنجاب اسمبلی میںپاکستان تحریک انصاف184،مسلم لیگ(ق)10،آزاد4اور 1پی ایچ آر پی جبکہ اپوزیشن جماعتوں میں مسلم لیگ (ن )کی165اور پاکستان پیپلزپارٹی کی 7سیٹیں ہیں۔
 عدم اعتماد

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...