گلیلیو سترہویں صدی میں اٹلی کا مایہ ناز، عظیم سائنسدان، ماہر طبیعات، ماہر فلکیات اور ماہر نفسیات تھا۔ گلیلیو سائنسی دنیا کا وہ نام ہیجس نے سب سے پہلے اس حقیقت کو افشاکیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ مذہبی جنونیوں نے اس ’’ جرم‘‘ کی پاداش میںاسے پھانسی دینے کا فیصلہ کرلیا ۔جب گلیلیو سے یہ کہا گیا کہ وہ یا تو اپنے الفاظ واپس لے یا پھر پھانسی پانے کیلئے تیار ہوجائے تو اس نے کہا کہ میں آپ لوگوں کے دباؤ کے پیش نظر اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں لیکن یاد رکھو زمین آپ لوگوں کے دباؤ سے آزاد ہے، یہ سورج کے گرد گھوم رہی ہے اور قیامت تک گھومتی رہے گی۔ بھلا ہو ان پادریوں کا جنہوں نے گلیلیو بیچارے کواپنے الفاظ واپس لینے کا ایک موقع تو دیا۔ ہمارے پیارے وطن میں تومعافی کی قطعی گنجائش نہیں بلکہ یہاں تو اس قسم کے’’ مجرم ‘‘کوسر عام مار دیا جاتا ہے۔ آپ سیالکوٹ واقعہ میںسری لنکن منیجر کو ہی دیکھ لیں جو بیچارہ اردو زبان سے نا بلد تھا۔ ایک فیکٹری ملازم نے اپنی سرزنش کا بدلہ لینے کیلئے کس طرح مذہب کا استعمال کیا یہ تحقیقات میں عیاں ہو چکا ہے۔
چہ جائیکہ خانیوال میں پیش آنے والے واقعے کا گلیلیو سے کوئی تعلق نہیں لیکن سترہویں صدی کے اہل کتاب مذہبی شدت پسندوں سے براہ راست تعلق ضرور ہے۔ شدت پسندی چاہے وہ سماجی ہو، سیاسی ہو، ذاتی ہو یا مذہبی خطرناک مرض ہے اور یہ مرض اب تک کرہ ارض پر لاکھوں انسانی جانیں نگل چکا ہے۔تازہ ترین مثال میاں چنوں کی ہیجہاں اتوار کے روز مشتعل افراد نے تشدد کرکے شہری کو ہلاک کر دیا۔ اس پر ملک بھرکے سنجیدہ حلقے رنجیدہ نظر آ تے ہیں۔ ہوا یوں کہ میاں چنوں کے مضافاتی گائوں ’’بارہ چک‘‘ کی مسجد کے پیش امام نے ایک شخص کو دیکھا جو قرآن پاک کی بے حرمتی کر رہا ہے۔ پیش امام نے بردباری اور سمجھداری سے دامن چھڑاتے ہوئے واقعے کی اطلاع پولیس کو دینے کی بجائے علاقے کے لوگوں کو کر دی۔ مذہب کے معاملے میں ’’زیرو ٹالرنس‘‘ رکھنے والے مقامی لوگوں نے مشتعل ہونے میں دیر نہیں کی اور نتیجتاََ’مشتاق احمد‘ پر تشدد شروع کر دیا ۔ پولیس کے مطابق اطلاع ملنے کے بعد وہ جائے وقوعہ پر پہنچیتو مذکورہ شخص کو لوگوں نے گھیر رکھا تھا اور اس پر تشدد کیا جا رہا تھا۔ ’بارہ چک کے رہائشیوں کے مطابق ملزم مشتاق احمد کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا اور وہ کئی کئی دن گھر سے باہر رہتاتھا۔ ذہنی توازن درست نہ ہونے کی بنا پر اس کی اہلیہ نے بھی چار سال قبل اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور بچے بھی اپنے ہمراہ لے گئی تھیں۔‘سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر کو زندہ جلائے جانے کے بعد اس واقعے سے عالمی سطح پر ایک بار پھر پاکستان بارے جگ ہنسائی ہوئی۔ دشمن قوتیں جو پہلے ہی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں مذکورہ واقعے کو جواز بنا کر پاکستان کیخلاف زہر اُگل رہی ہیں۔بدقسمتی سے مذہب کیمعاملے میں ہم تحمل و دانائی سے کام لینے کی بجائے جذباتی ہو جاتے ہیں اورامن ، محبت، بھائی چارے، یگانگت، مذہبی رواداری کا درس دینے والے خوبصورت ترین دین اسلام کی بقیہ تمام تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنی تسکین کا سامان ڈھونڈتے ہیں۔ایک طرف تو ہم نیوزی لینڈ اور بھارت سمیت دیگر ممالک میں ’’مذہبی جنونیت‘‘ کا نشانہ بننے والے مسلمانوں کیلئے آواز اٹھاتے ہیں تو دوسری جانب بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے ہی ملک میں شدت پسندی کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔ بحیثیت قوم ہم اتنی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ اپنے ذاتی مفادات ، رنجشوں اور انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے بھی توہین مذہب کا کارڈ کھیلتے ہیں۔ اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے مفادات و مقاصد کی خاطر مذہب کا نام استعمال کرکے کسی بھی دوسرے شخص کو بھینٹ چڑھا سکتا ہے ۔بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم کہیں توہین مذہب یا توہین رسالت ہوتی دیکھیں تو قانون کو ہاتھ میں لینے کی بجائے سب سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں کواطلاع دی جائے۔ یہ بات ہمیں ہمارا دین ، تما م جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبی آخر الزمانؐاور وطن عزیز کا قانون سکھاتے ہیں۔ اس ضمن میں قانون ساز اداروں کو ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز میں توہین مذہب کے قانون کی واضح تشریح ہونی چاہئے اور اس کا غلط استعمال کرنے اور اشتعال انگیزی پھیلانے والے شر پسند عناصر کی سرکوبی کیلئے بھی قانون میں ترمیم انتہائی اہم ہے۔
جنونیت اور رواداری
Feb 16, 2022