طبلِ جنگ بج گیا!

پاکستانی سیاست میں گزشتہ دو،تین ہفتوں سے کافی تیزی آئی ہوئی ہے جس سے سیاست کا درجۂ حرارت بہت بڑھ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے تو حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے اور وہ اسلام آباد پر چڑھائی کا ارادہ کر کے 27فروری سے لانگ مارچ کرنے جا رہی ہے۔ جس کی ابتداء کراچی سے ہو گی۔ بعدازاں لانگ مارچ کا یہ قافلہ پنجاب سے ہوتا ہوا پاکستان کے کیپیٹل اسلام آباد میں داخل ہو گا۔ اسلام آباد پہنچنے پر دھرنا ہو گا یا نہیں؟ پی پی پی کی جانب سے اس کا کوئی باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا تاہم غالب گمان ہے کہ پیپلز پارٹی اسلام آباد میں دھرنا نہیں دیگی۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں انٹری اور تقریروں کے سیشن پر لانگ مارچ کے شرکاء طے شدہ پروگرام کے مطابق پُرامن طور پر منتشر ہو جائیں گے۔ مزارِ قائد کراچی سے بلاول بھٹو زرداری حکومت مخالف اس لانگ مارچ کی قیادت کرینگے جس میں پی پی پی کے دیگر اہم قائدین بھی پورے عرصے کیلئے موجود ہوں گے جبکہ دوسری جانب حکومت مخالف 9سیاسی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم بھی 23مارچ کو لاہور کی سڑکوں پر جلوہ گر ہو گا اور پنجاب کے مختلف شہروں میں اپنی رونمائی کرتا ہوا جی ٹی روڈ کے راستے اسلام آباد میں داخل ہو جائیگا۔جہاں اس کا پڑائو اسلام آباد کے تاریخی مقام ڈی چوک میں ہو گا۔ پاکستان میں موجود تمام ن لیگی قیادت کو 23مارچ کے اس لانگ مارچ میں شامل ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ فضل الرحمن لانگ مارچ کے اس 9جماعتی بڑے قافلے کی قیادت کرینگے جبکہ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی ہمیں سرفہرست نظر آئینگے۔ مریم نواز کو بھی لانگ مارچ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تاہم پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کا یہ قافلہ جب اسلام آباد میں پڑائو ڈالے ہوئے ہو گا تو پروگرام کے مطابق مریم نواز کی بھی انٹری ہو جائے گی اور وہ ہمیں لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتی دکھائی دیں گی۔ لانگ مارچ کا اختتام طویل المعیاد دھرنے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ دھرنا کتنے دنوں پر محیط ہو گا ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن ذرائع تصدیق کر رہے ہیں کہ ’’نتائج‘‘ کے آنے تک پی ڈی ایم کا یہ دھرنا جاری رہ سکتا ہے جس کی مدت کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔
سیاست میں یہ جو نیا منظر نامہ بن رہا ہے وہ حکومت کیلئے بہت ہی پریشان کن ہے۔ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے لانگ مارچ اور دھرنا سیاست سے حکومت کیلئے بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور حکومت کو اس کا اچھی طرح سے ادراک ہے۔ آنیوالے دنوں میں رونما ہونیوالے اس سیاسی منظر نامے نے حکومت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ اسی تناظر میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک بڑی بیٹھک سجائی جس میں اہم وزیروں سمیت قریبی رفقاء سے طویل مشاورت کے بعد طے پایا کہ پی ٹی آئی بھی سڑکوں پر نکلے گی، جلسے کریگی۔ ابتدائی طور پر چار مختلف اضلاع میں پی ٹی آئی کی جانب سے عوامی جلسوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔ پہلے جلسے کا انعقاد پنجاب کے ضلع منڈی بہائو الدین میں ہو گا جس کے بعد جلسوں کا دائرہ مزید تین شہروں تک بڑھا دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے زیر اہتمام ان تمام جلسوں سے وزیراعظم عمران خان خطاب کرینگے۔ اُنکی تقریر کا مرکزی خیال اپوزیشن جماعتوں کے کردار اور کرپشن کے حوالے سے ہو گا۔ وہ پانچ سال پہلے کی تقریروں کو دہرائیں گے۔
پی ٹی آئی نے جماعتی طور پر ان جلسوں کے حوالے سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ میٹنگز ہو رہی ہیں۔ سپورٹرز اور ورکرز سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں ان جلسوں میں شرکت کریں تاکہ ثابت ہو سکے کہ پی ٹی آئی اب بھی پاکستان کی سب سے بڑی مقبول سیاسی جماعت ہے۔ سپورٹرز اور پی ٹی آئی ورکرز ان ہدایات پر کیسے عمل کرتے ہیں۔ کتنی بڑی تعداد میں جلسوں میںآتے ہیں۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ جلسوں میں لوگوں کی کم یا بڑی تعداد میں شرکت پی ٹی آئی کی مقبولیت کا تعین کریگی لیکن اندیشے بہت بڑھ گئے ہیں۔ اسلام آباد میں خوف کی پرچھائیاں چاروں طرف پھیلتی نظر آ رہی ہیں۔ ان سارے واقعات میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا رول ہو گا؟ ذرائع ظاہر کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ آنے والے دنوں میں نیوٹرل نظر آئے گی۔ آنے والا سیاسی طوفان کافی حد تک تھم جائے گا جبکہ ملک مستقل استحکام کی طرف بڑھے گا۔ 
ایک بڑی خبر یہ بھی آ رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے لانگ مارچ سے پہلے یعنی اِسی فروری کے مہینے میں حکومت کے خلاف ’’عدمِ اعتماد‘‘ کی تحریک لے آئے گی۔ یہ ’’عدمِ اعتماد‘‘ پی ٹی آئی کے 20ایم این ایز کی سپورٹ سے ہو گا۔ فیصلہ اب صرف یہ کیا جا رہا ہے کہ تحریک عدمِ اعتماد پہلے اسپیکر نیشنل اسمبلی اسد قیصر کیخلاف لائی جائے یا پہلا ہدف وزیراعظم عمران خان ہوں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اس حوالے سے اپنی جماعت کے رہنمائوں سے قریبی رابطے میں ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر مشاورت ہو رہی ہے۔ ن لیگی قیادت میں بڑا اطمینان پایا جاتا ہے کہ وہ اب منزل کے بہت قریب ہیں۔ ظاہر ہے لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ہم سب جو سیاسی منظر نامہ دیکھ رہے ہیں وہ تصدیق کر رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے۔ جس نے حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

ای پیپر دی نیشن