بشریٰ رحمن اور روحی کنجاہی کا سفرِ آخرت 

ساحر لدھیانوی کا شعر ہے:۔؎
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی 
جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مر جاتے 
حال ہی میں دو ادبی شخصیات وفات پا گئیں۔ بشریٰ رحمن اتوار 6 فروری اور روحی کنجاہی منگل 8 فروری کو سفرآخرت پر روانہ ہو گئے۔ یہ دونوں شخصیات نثراور شاعری میں اتنا سرمایہ چھوڑ گئے ہیں کہ بقول ساحر ’’جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی‘‘ کہتے ہیں کہ زمین انتقال کے بعد بندے کی ہوتی ہے اوربندہ انتقال کے بعد زمین کا ہو جاتا ہے۔ 
بشریٰ رحمن نے افسانہ، ڈرامہ، ناول نگاری، سفرنامہ، کالم نویسی اور شاعری میں اپنا نام اور مقام بنایا جبکہ روحی کنجاہی نے شاعری میں۔ ادب کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی بشریٰ رحمن نے اپنا لوہامنوایا۔ طویل عرصہ تک ’’نوائے وقت‘‘ صفحہ 2 پر ان کے کالم شائع ہوتے رہے۔ تحریر کے علاوہ انھیں گفتگو کا بھی فن آتا تھا، اسی لیے انھیں ’’بلبل پاکستان‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا رہا۔ بشریٰ رحمن ملنسار خاتون تھیں۔ بیشتر ادبی، سماجی اور سیاسی تقریبات میں انھیں بطور صدر یا مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا۔ وہ اپنی اقامت گاہ پر بھی ادبی محافل کا انعقاد کرتی رھیں۔ ان کی ادبی خدمات، کالم نویسی اور سیاست پر بہت لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا۔ میں ایک ایسی تقریب کا ذکر کروں گا جس کا تعلق میری ذات سے ہے۔ 
اگست 1996ء میں لاہور پریس کونسل کے زیر اہتمام میری گولڈن جوبلی (50 ویں سالگرہ)لاہور تھیٹر میں منائی گئی۔ یہاںپہلے شمع سینما تھا۔ عمر شریف نے اسے خرید کر تھیٹر بنا دیا اور سٹیج ڈرامے شروع ہوگئے۔ اس تقریب کی صدارت اشفاق احمد نے کی۔ مہمان خصوصی بشریٰ رحمن تھیں۔ بشریٰ رحمن نے اپنے خطاب میں کہا: ’’تنویر ظہور پاکستان کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں (پیدائش کا سن 1947ئ) پاکستان کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے اور تنویر کی بھی۔ یہ بے باک صحافی اور ادیب ہیں، جو کچھ محسوس کرتے اور دیکھتے ہیں، اسے بے دھڑک بیان کردیتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنی مٹی کو گواہ بنا کر لکھتے ہیں، اس لیے انھیں اکثر اسی مٹی میں انمول موتی، گھونگھے اور سپیاں نظر آ جاتی ہیں۔ کسی انسان میں اتنی خوبیوں کا ہونا بہت بڑی بات ہے‘‘ 
بشریٰ جی نے اردو میں لکھا۔ ان کی مادری زبان سرائیکی تھی۔لاہور میں قیام کے باعث پنجابی زبان و ادب سے بھی انکی محبت تھی۔ اپنے کالموں میں پنجابی صوفی شاعروں کا تذکرہ کرتیں۔ پنجابی زبان کے بزرگ شاعر اور سیوک راجا رسالو کی 70 سالگرہ 1999ء میں اکادمی ادبیات پاکستان لاہور کے زیر اہتمام منائی گئی۔ اس تقریب میں بھی وہ مہمان خصوصی تھیں۔ یہاں انھوں نے پنجابی میں خطاب کیا۔ 
ان کا کہنا تھا:’’راجا رسالو تے اوہدے پہلاں ساتھیاں نے پنجابی زبان دی ترقی تے وادھے لئی بہت ورھے پہلاں کم شروع کیتا۔ اج دا زمین اسمان دا فرق اے۔ اج ہر سال رنگا رنگ پنجابی کتاباں چھپ رھیاں نیں۔ ایہہ سب کچھ راجا رسالو تے اوہدے ساتھیاں دی محنت تے لگن دا نتیجہ اے۔ راجا رسالو اک ملنگ بندہ اے تے مشنری طرز اتے کم کر رھیااے۔ اوہ پیار محبت ونڈن والا درویش بندہ اے‘‘ 
شاعری کے حوالے سے روحی کنجاہی کا نام اہم ہے۔ وہ ایک قلندر شخص تھا۔ ہمیشہ دھیمے لہجے میں بات کی۔ روحی کنجاہی کا اصل نام امر الہی ہے۔ امر الٰہی کو اس نے روحی کنجاہی میں نہ جانے کیا سوچ کر تبدیل کیا۔ جو روحی کنجاہی سے واقف نہ تھے وہ ’’خاتون‘‘ سمجھتے رہے۔ زمانہ طالب علمی میں مجھے ایک مشاعرے میں شرکت کا موقع ملا۔ اس وقت میں شعرا سے متعارف نہیں ہوا تھا۔ میرے ساتھ چند نوجوان بیٹھے تھے۔ سٹیج سیکرٹری نے ایک شاعر زیبا ناروی کا نام پکارا۔ مجھ سمیت نوجوان ہمہ تن گوش ہو گئے کہ کوئی خوبرو لڑکی ہو گی۔ سٹیج پر جب ایک باریش شخص کو آتے دیکھا تو ہم سب مایوس ہو گئے۔ روحی کنجاہی کا سن پیدائش 1938ء ہے۔ اس ناتے وہ 83برس جئے۔ ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ’’سمتیں‘‘ 1986ء میں منظر عام پر آیا۔ دیگر کتب میں بے مثال افسانے (اٹھاسی سالہ انتخاب 88ئ) منتخب شاہکار مزاحیہ شاعری (جعفرز ٹلی سے عہد حاضر 92ئ، منتخب شاہکار اشعار 93ئ، اچھے دنوں کی آس میں (اردو کلام) آنسو بہانا یاد ہے (انتخاب غزلیات حسرت موہانی 97ئ) اجڑے دیار میں (انتخاب کلام بہادر شاہ ظفر) تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو (انتخاب مومن خان مومن) ذرا وصال کے بعد (انتخاب کلام فراق) اور آنگن کے پھول (بچوں کے لیے نظمیں)  روحی کنجاہی کا شعر ہے:۔؎ 
ظلم ہنس ہنس کے سہے جاتے ہیں 
ہمتِ اہلِ وطن ہے کتنی

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...