منی بجٹ پیش، مہنگا ئی کا طوفان پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی برھ گئیں 

Feb 16, 2023


اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+نا مہ نگار)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے 170ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کرنے کے لئے فنانس کا ترمیمی بل 2023ایوان میں پیش کر دیاہے جس کے تحت سگریٹ ،سیمنٹ،مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا گیا ، ائر ٹریول مہنگا ،سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ڈیڑھ روپے فی کلو گرام سے بڑھا کر 2 روپے فی کلوگرام کر دی گئی ،  ٍجنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد سے 18 فیصد کردیا گیا، اس کی وجہ سے ہزاروں اشیاء مہنگی ہو گئی ہیں،، شادی ہالز ،مارکیز ،ہوٹلز،رسٹورینٹس کمشل لانز ، کلب اور کمیونٹی مقامات  سیمنارز،اجلاس ،ورک شاپ،شادی ،تقریب،نمائش کے بل کی رقم کے دس فیصد کے مساوی ایڈوانس ٹیکس لگا دیا گیا ،حکومت نے سگریٹ اور جی ایس ٹی کا ریٹ17سے18فی صد کرنے کے نوٹیفیکشن گذشتہ شب ہی جاری کر کے ان کا نفاذ کر دیا تھا جن سے115ارب روپے وصول کرنے کا تخمینہ ہے ، تمباکو کی مصنوعات پر عائد ٹیکس سے 60 ارب روپے اکٹھے ہوں گے۔نوٹی فکیشن کے مطابق 9 ہزار روپے مالیت سے زائد کے فی ایک ہزار سگریٹس کے پیکٹ پر ڈیوٹی بڑھا کر 16 ہزار 500 روپے مقرر کردی گئی۔ 9 ہزار روپے سے کم قیمت والے فی ایک ہزار سگریٹس کے پیکٹ پر ڈیوٹی 5 ہزار پچاس روپے مقرر کی گئی ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس بڑھا کر 18 فیصد کرنے سے مزید 55 ارب روپے  جبکہ مذید 55 ارب روپے ہوائی جہاز کے ٹکٹس، چینی کے مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے اکٹھے کیے جائیں گے۔ پر تعیش اشیاء پر پر17کی بجائے 25 فیصد جی ایس ٹی لگا دیا گیا ،، درامدی لگژری اشیاء پر وزارت تجارت نے کچھ عرصہ قبل پابندی لگائی تھی۔ ان آیٹمز میں 85ٹیریف لائنز شامل ہیںجن میں آٹیمز کی تعداد سینکڑوں ہے، درآمدی مشروبات ، آٹو سی بی یو، کارپٹس،سیگریٹس ،کاسیٹکس ،ٹشو پیپرز اور دیگر اشیاء شامل ہیں ،جن مقامی مشروبات پر ان کی پرچون قیمت کے دس فی صد کے مساوی ایکسائز ڈیوٹی لگائی گئی  ہے، چینی ملے فروٹ کے جوسیز ، سیرپ ،اسکوئشز شامل ،فنانس بل میں 500 ڈالر سے مہنگے موبائل فونز پر جی ایس ٹی کی شرح 17 سے بڑھا کر 25 فیصد مقرر کرنے کی تجویز شامل ہے۔بین الاقوامی سفر کے لیے ائر ٹکٹ پر 50 ہزار روپے فی ٹکٹ اور مجموعی رقم کا 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے۔ دونوں میں سے جو رقم زیادہ ہوگی وہ وصول کی جائے گی، پھل کے گودے  سے  تیار ڈرنکس پر ایسائز ڈیوٹی13 فی صد سے بڑھا کر 20فی صد کر دی گئی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق   قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2023پیش کر دیا گیا ہے اپوزیشن کی طرف سے بل پر شدید تنقید کی گئی، سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ضمنی مالیاتی بل کو قومی اسمبلی کے رول 122 کے تحت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو نہیں بھجوایا جائے گا ۔قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں منعقد ہوا اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی ضمنی بل 2023 کی تحریک پیش کی بعد ازاں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں معیشت پر بات کریں امید ہے کہ ان اقدامات کے بنا پر معیشت بہتر ہوگی ہمیں پاکستان کو واپس ترقی کی راہ پر لانا ہے، مسلم لیگ (ن)کے دور حکومت میں مجموعی قومی پیداوار میں 112ارب ڈالرکے اضافہ کے مقابلہ میں سابق حکومت کی نااہلی کی وجہ سے قومی پیداوار میں صرف 26ارب ڈالر کا اضافہ ہوسکا، پی ٹی آئی کی ناقص پالیسی کی وجہ سے معیشت کونقصان پہنچا، پی ٹی آئی دور میں عام آدمی کی آمدن میں کمی آئی۔ قومی اسمبلی میں سپلیمنٹری فنانس بل پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا نواز شریف دور میں معیشت دنیا میں 24ویں نمبر پر آگئی تھی ،2022  میں پاکستان دنیا کی 47ویں معیشت بن گیا، پاکستان جی 20 ممالک میں شامل ہونے جارہا تھا،اسحاق ڈار نے کہا کہ سازش کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کو ہٹایا گیا۔ وزیر خزانہ نے مطالبہ کیا کہ معاشی تنزلی کی وجوہات جاننے کیلئے قومی کمیشن بنایا جائے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں 40 ارب روپے کا اضافہ کرکے یہ رقم 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب کردی گئی ہے۔ حکومت کو اس چیز کا احساس کہ مہنگائی زیادہ ہے اس لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ غریب عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے، اسی تناظر میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے وظیفے میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدے سے عمران خان نے  انحراف کیا ، برعکس فیصلے کیے ،غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ2018تک پاکستان کامجموعی قرضوں کا حجم 20953ارب روپے تھا،پی ٹی آئی کے دور میں پاکستان کاقرضہ34383ارب ہوگیا،آئی ایم ایف کے ساتھ عمران حکومت کی پالیسی کی وجہ سے اعتماد کا فقدان ہواہم نے عمران حکومت کے آئی ایم ایف سے وعدوں کو نبھایا ہے ہم اس سب کی بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کررہے ہیںآئی ایم ایف کے وفد سے مذاکرات ہوئے ہیںملک میں 170 ارب روپے کی ٹیکسز لگائے جارہے ہیں، اس مشکل صورتحال میں کچھ مشکل فیصلے ناگزیر ہیں، بجلی چوری کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ بہت بڑھ گیا ہے یہ گردشی قرضہ اتنا بڑھ گیا ہے جس کی معیشت متحمل نہیں ہوسکتی گردشی قرضہ2467 ارب تک پہنچ چکا ہے ۔لازم ہے کہ ہم چند مشکل فیصلے کریں ہا کہ ملک کو میثاق معیشت کی ضرورت ہے، گندم چاول دودھ دالوں کھلے دودھ پر ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا گیا،وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ کابینہ سادگی اپنائے گی اللہ تعالی پر بھروسہ ہے آہستہ آہستہ ترقی کا سفر شروع ہوگا ، وزیر اعظم اور کابینہ اخراجات کم کرے گی جی ڈی پی گروتھ کو بڑھائیں گے خساروں کو کم کرنے اور کنٹرول کرنے کے اقدامات کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایل سیز نہ کھلنے کے مسائل حل ہونگے ، زیر اعظم نے زراعت کیلئے دو ہزار ارب کا اعلان کیا ہے، ایک ہزار ارب روپے تقسیم بھی کردیے گئے ہیں ، زراعت سے منسلک چھوٹے کاروباروں کیلئے10ارب روپے مختص کیے ہیں سولر انرجی سے ٹیوب ویل لگانے کیلئے رعایتی قرضے دیے جائیں گے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کیلئے بھی خصوصی مراعات کا اعلان کیا ہے ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ایک روڈ میپ اور معاہدے کی ضرورت ہے، مل کر بیٹھنا ہوگا امید ہے اداروں کی مکمل تائید حاصل رہے گی ،، ہم ایک ہوکر کوشش کریں تو ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہونگے۔
 ،
مجموعی قرضوں کا حجم 24ہزار 953 ارب تھا جو پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں بڑھ کر 44ہزار 383ارب ہو گیا، یہ قرضوں کا حجم جو 2018 میں جی ڈی پی کا 63.7 فیصد تھا، وہ بڑھ کر 2022 میں 73.5 فیصد ہو گیا ،  ہماری سالانہ قرضوں کی سروسنگ بدقسمتی سے پانچ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔   موجودہ حکومت کو ایک بیمار معیشت ملی، ، اگر ریاست ہے تو سیاست ہے۔ بجلی کی چوری، لائن لاسز، بلوں کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں تین ہزار ارب روپے کے لگ بھگ بجلی کے بلوں کے عوض صرف 1600ارب وصول کیا جاتا ہے اور باقی 1400ارب سالانہ نقصان ہے، یہ کسی بھی معیشت کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اس قسم کے نقصان کی کوئی بھی ریاست متحمل نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے جن اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے اس کے نتیجے میں اس سال شامل ہونے والے 855ارب روپے کے گردشی قرضوں کو کم کر کے 336ارب روپے کیا گیا ، یہ ہمارا نیا ہدف ہے کیونکہ 570ارب روپے اس معزز ایوان نے بجٹ میں منظور کیے ہوئے ہیں، یہ اس کے علاوہ ہیں۔  اس فنانس بل کے ذریعے کابینہ نے 170ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی منظوری دی ہے۔ روزمرہ کی اشیا پر اضافی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، وزیر خزانہ نے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے امیر طبقے پر اضافی ٹیکس لگانے کی حکمت عملی کے تحت اب لگثری آئٹم پر جی ایس ٹی کی شرح کو 17فیصد سے بڑھا کر 25فیصد کی بلند سطح پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔


انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہوائی سفر میں فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ٹکٹ کا 20فیصد یا 50 ہزار روپے میں سے جو بھی زیادہ ہو، وہ عائد کی جائے گی، اس طرح پرتعیش شادی ہالز میں منعقدہ شادی بیاہ میں اصراف دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ہم سب کو سادگی اپنانی چاہیے اس لیے فیصلہ کیا گیا ، عالمی ادارہ صحت نے چند ایسی اشیا کی قیمتیں بڑھانے کی سفارش کی ہے جو انسانی صحت کے لیے مضر ہیں، اس لیے سگریٹ، ایریٹڈ، شوگری ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ تجویز کیا جا رہا ہے، ہم نے کوشش کی ہے کہ عام استعمال کی اشیا مثلاً گندم، چاول، دودھ، دالیں، سبزیاں، پھل ، مچھلی، انڈوں، کھلے گوشت اور مرغی پر یہ اضافی ٹیکس عائد نہ کیا جائے۔ زراعت، انڈسٹری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کے ذریعے جی ڈی پی کی شرح نمو کو اگلے مالی سال میں چار فیصد سے دوبارہ اوپر لے کر جائیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تقریباً دو ہزار ارب روپے کے کسان پیکج کا حال ہی میں اعلان کیا ہے جس کے اہم خدوخال یہ ہیں کہ اس سال مالی سال میں اسٹیٹ بینک نے زرعی قرضوں کا ہدف 1819 ارب مقرر کیا ہے اور اس میں 400ارب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچرل لون اسکیم کے تحت آسان شرائط پر قرضوں کی اسکیم کی منظوری دی ہے جس کے تحت اس سال 30ارب روپے کے قرضہ جات فراہم کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ زرعی مشینری کی فراہمی کے لیے 6.4ارب روپئے کی سبسڈی مختص کی گئی ہے ، اس اسکیم کے تحت کسانوں کو ٹریکٹر، تھریشر اور ہارویسٹرز کے آسان قرضے کم شرح پر مہیا کیے جائیں گے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ کھاد اور یوریا کے ساتھ ڈی اے پی بہت اہم ہے، اس کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے اور درآمد کی جانے والی ڈی اے پی کو فکس رقم پر فراہم کیا جا رہا ہے۔ زراعت سے منسلک چھوٹے اور درمیانی کاروباروں کو سہل بنانے کے لیے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال تک پرانے ٹریکٹرز کی درآمد کی اجازت بھی کسٹم ڈیوٹی کی رعایتی شرح پر دے دی گئی ہے، جبکہ سولر انرجی سے ٹیوب ویل لگانے کے لیے رعایتی شرح پر قرضے دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔آئی ٹی اور آئی ٹی کی حامل سروسز کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے اس شعبے سے منسلک افراد اپنے نجی یا کمپنی کے اکاؤنٹ میں اپنی وصول ہونے والی غیرملکی کرنسی میں سے 35فیصد تک اپنے اکاؤنٹ میں رکھنے کے مجاز ہوں گے۔
 اسلام آباد (عترت جعفری)کمپنی(نان لسٹیڈ) کے شیئرز کی خریداری پر مارکیٹ ویلیو پر 10 فیصد ایڈوانس ٹیکس عائد کر دیا گیا ،ترمیمی بل کے مطابق پہلے نان لسٹیڈ کمپنیوں کے شئیر پر29فی صد ٹیکس تھا اب قانون میں تبدیلی کر دی گئی ہے ، اور ہدائت کی گئی ہے کہ اس میں سے دس فی صد ٹیکس ایڈوانس میں جمع کرایا جائے ،جی ایس ٹی کا ریٹ 18فی صد کرنے سے صرف کھلی گندم ،چاول ،دودھ،دالیں،کھلا گوشت مبرا ہوں گے ، خوراک کی ڈبہ بند اشیاء پر یہ ریٹ18فی صد ہی ہو گا، اس طرح ڈبہ بند گھی ،خوردنی آئل ،بجلی ،کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ اور گیجٹس،بجلی ،موبائل، اسمارٹ فونز، آئی پوڈز ،الیکٹرانکس ، ایل ای ڈی اور ایل سی ڈی ، شیمپوز، پرفیوم اور برانڈڈ عطر سمیت جن اشیاء پر 17فی صد جی ایس ٹی ہے وہ اب 18فی صد ہو گیا ہے۔سٹیل کے اوپر بھی جی ایس ٹی کا ریٹ 18فی صد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے لوہے کے فی ٹن ریٹ6ہزار روپے بڑھ گئے ہیں۔ایل پی جی بھی مہنگی کر دی گئی ہے،اس پر ریٹ 18 فیصد ہو گیا ہے ،اسی طرح گیس پر بھی ریٹ18فی صد ہو گا ،ملک کے اندر درآمد ہونے والے کھانے کے تیل اور گھی جو بند ڈبو میں آتے ہیں ان کو پر تعیش اشیاء کی فہرست میں ڈال کر ریٹ25فی صد کر دیا گیا ،آئی ایم ایف کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ حکومت درآمدات کو بین نہ کرے،زارئع کا کہنا ہے کہ پر تعیش اشیاء قرار دے کر بین کی جانے والی ان اشیا پر 25فی صد ٹیکس لگنے کے بعداس پابندی کو بھی کو اٹھانا پڑے گا۔ بسکٹ، جام، جیلی، نوڈلز سب مہنگے ہوگئے۔ بچوں کے کھلونے، چاکلیٹ، ٹافیاں، خواتین کے لیے میک اپ کا سامان، شیمپو، کریم، لوشن، صابن اور ٹوتھ پیسٹ پر بھی سیلز ٹیکس 18 فیصد۔ ہیئرکلر، ہیئر ریموورکریم اور ہیئر جیل ، شیونگ فوم، شیونگ جیل، شیونگ کریم اور شیونگ بلیڈز کے علاوہ سینکڑوں الیکٹرانکس آئٹمز، ٹی وی،جوسر بلینڈرز، شیکرز اور دیگر الیکٹرونکس مشینری، گاڑیوں کے شیمپو،گاڑی چمکانے کی کریم اور دیگر سامان، پرفیوم اور برانڈڈ عطر پر بھی سیلز ٹیکس 18 فیصد کردیا گیا ہے۔ 

جی ایس ٹی 
 اسلام آباد (نامہ نگار+ خبر نگار )  چیئرمین پبلک اکانٹس کمیٹی نور عالم خان نے ضمنی مالیاتی بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں کبھی بھی اس ظالمانہ بل کی حمایت میں ووٹ نہیں دوں گا خواہ اس کے لیے مجھے ایسی دس سیٹیں قربان کرنا پڑیں ،  نور عالم خان نے کہا کہ پاکستان کی تقدیر میں وزرا خزانہ جب مہنگائی کرنی ہوتی ہے تو اسمبلی میں آتے ہیں ،آج تک غریب عوام کا فائدہ ہوتے نہیں دیکھا ،ایک وزیر خزانہ نے اپنا ذاتی بینک کھول لیا ہے، نور عالم خان نے کہا کہ آج آٹے کا تھیلا 37 سو روپے بلوچستان میں مل رہا ہے، چینی 100 روپے کلو،یوریا کی بوری37سو روپے ،ڈی اے پی 13ہزار روپے میں مل رہی ہے دوائیاں 170فی صد مہنگی ہو گئی ہیں گزشتہ حکومت میں میںنے بات کی تو اس وقت کے لوگوں کو اچھی نہیں لگی اور آج بھی اچھی نہیں لگے گی ،افسران کو 13سو یونٹ بجلی فری میں دیتے ہیں اور غریبوں سے بل وصول کر رہے ہیں ،فری بجلی ختم کی جائے ، تین سو کنال والے اور بڑے گھروں والوں اور اپنے لیڈروں کو کو پکڑیں ،انہوں نے کہا کہ کارخانوں سے رشوت کون لیتا ہے صرف ٹیکس لیتے ہیں لیکن سہولیات نہیں دی جاتیں ،غریب کا سوچنا ہو گا، ان پر ٹیکس مت لگائیں بجلی مہنگی کرنا زیادتی ہو گی، ایف بی آر والوں کو لگام ڈالیں،کیوںسے قانون کے تحت ڈالر مافیا کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ، ،ایک لیڈر کی سیکورٹی پر 470 اہلکار لگائے گئے ہیں ۔جماعت اسلامی کے مولانا عبدلاکبر چترالی نے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسایا جا رہا ہے ، ہم غلام ابن غلام بن چکے ہیں ،مولانا عبدالاکبر چترالی کی تقریر جاری تھی کہ سپیکر نے اجلاس جمعہ 17فروری دن ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا ۔دوسری طرف ایوان بالا کا اجلا س منی بجٹ پیش اپوزیشن کے نامنظور نامنظور کے نعرے، چیئرمین ڈائس کے سامنے جمع ہو کر ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کرہوا میںاڑا دی، اجلاس جمعہ تک ملتوی ، سینیٹ 44منٹ تاخیر سے شروع ہوا،چیئرمین سینیٹ کی جانب سے سینیٹر عمر فاروق، کیشو بائی اور سینیٹر علی ظفر کو پینل آف چیئرمین کیلئے نامزد کیاگیااجلاس آٹھ منٹ کاروائی کے بعد جمعہ 17فروری تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا ہے وزیر مملکت برائے قانون شہادت اعوان نے وزیر خزانہ کی جگہ آئین کے آرٹیکل 73کے تحت منی بل 2023کی تحت ایوان میں پیش کیا جس پر چیئرمین سینیٹ نے اراکین سینیٹ سے اس اپنی رائے مانگی ایوان میں منظور ہے کے ساتھ چند ایک ممبران نے اونچی آواز میں منظور نہیں ہے کا نعرہ لگایا ،چیئرمین سینیٹ نے اکثریت رائے دہی تحریک منظور کی ،وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منی بل 2023 ایوان میں پیش کیا اس موقع پر اراکین سینیٹ نے شور شرابا کیا اور نا منظور کے نعرے لگائے ، پی ٹی آئی کے اراکین نے چیئرمین سینیٹ کی نشست کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرایا احتجاجی اراکین اس موقع امپورٹڈ حکومت نامنظور ، آئی ایم ایف بجٹ نامنظور کے نعرے لگاتے رہے چیئرمین سینیٹ نے ا س موقع پر بل کو ٹیبل کرنے کی اجازت دیتے ہوئے اجلاس 17فروری تک کیلئے ملتوی کر دیا 
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) 170ارب روپے کے ٹیکس  لگانے کے چند گھنٹے بعد حکومت نے پٹرولیم مصوعات کی قیمتوں کو بڑھا دیا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں 22.20روپے فی لیٹر اضافہ کرتے ہوئے اس کی نئی قیمت 272روپے فی لیٹر مقرر کر دی ہے۔ ڈیزل کی قیمت میں17.20روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کی نئی قیمت280روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں 12.90روپے کا اضافہ کیا گیا ہے اس کی نئی فی لیٹر قیمت 202.73 روپے لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ لائٹ دیزل کی فی لیٹر قیمت میں 9.68روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کی نئی قیمت 196.68روپے فی لیٹر بڑھائی گئی ہے۔ دوسری طرف ایل پی جی 3 روپے 21 پیسے مہنگی کر دی گئی۔ ایل پی جی کی نئی قیمت 216 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے۔ ایل پی جی پر جی ایس ٹی 17 سے 18 فیصد کر دی گئی۔ ایل پی جی کا 11.8 کلو کا گھریلو سلنڈر 37.88 روپے مہنگا ہو گیا۔چینی  پر بھی ٹیکس میں اضافہ،گیس قیمت 112 فیصد  بڑھادی گئی،  اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پروٹیکٹڈ کیٹیگریز کے 4 سلیبسز بنا دیے گئے،  25 مکعب میٹر، جبکہ 50 مکعب میٹر، 60 مکعب میٹر اور 90 مکعب میٹر ماہانہ کے صارفین بھی پروٹیکٹڈ کیٹیگری شامل ہیں۔اوگرا اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گیس گی نئی قیمتوں کا اطلاق یکم جنوری سے ہو گا۔

مزیدخبریں