چھ دن بعد بھی زلزلے کے ملبے سے زندہ لوگ برآمد ہورہے ہیں اور زیادہ تر ان میں بچے ہیں۔ حیرت ہے اور مزید حیرت یہ ہے کہ زندہ دفن ہونے والے لوگ نیم مردہ نہیں لگتے۔ سخت صدمے سے جو کیفیت طاری ہوتی ہے‘ اسے ٹراما کہتے ہیں اور زیادہ تر لوگ ٹراما زدہ بھی نہیں لگتے۔ چھ دن بنا کچھ کھائے اور پیے یہ لوگ اس حالت میں پھر کیوں ہیں؟ شاید یہ طبی ’استثنیات‘ میں ہیں۔ ایک بچی البتہ ہم بے ہوشی میں مسلسل یہ دہراتی ہوئی نکالی گئی کہ میں نے اتنے دن سے نماز نہیں پڑھی‘ میرا کیا بنے گا۔ ترکی اور شمالی شام میں ایسے واقعات کی ویڈیوز ہر روز آرہی ہیں۔کوئی یہ باتیں سناتا تو یقین نہیں کرتا‘ لیکن جو ماجرا ہے‘ وہ دکھایا جا رہا ہے۔ یقین کرنا پڑتا ہے۔ ایک چھوٹی سی البتہ زندہ حالت میں نکلی‘ نکالنے والے کا ہاتھ محبت سے پکڑا اور پھر دم توڑ گئی۔ایک ننھا منا بچہ ریسکیو کرنے والے کو بتا رہا تھا کہ تم اور تمہارے جیسے دوسرے لوگ جنت میں جائیںگے۔
ترکی کے اس تباہ کن زلزلے کے بعد سے ہزاروں ایسی داستانوں نے جنم لیا ہے۔ ہر زلزلے‘ ہر قدرتی تباہی کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہزاروں المیے منظر عام پر آتے ہیں اور زیادہ .... کم جبر والے المیے تو کبھی رکتے ہی نہیں
روز معمورہ ¿عالم میں خرابی ہے ظفر
ایسی دنیا سے تو ویرانہ بنایا ہوتا
جوں جوں آبادی بڑھ رہی ہے‘ المیوں کی ”مردم شماری“ بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
....................
ترکی میں ”ریسکیو“ کا نظام بہت اچھا ہے اور انسانی ہمدردی کی سطح بھی بہت بلند ہے۔ پاکستان میں بیٹھ کر ہم لوگ اس پر حیران ہی ہو سکتے ہیں۔ پچھلے دو عشروں میں پاکستان پر بہت سی آفات نازل ہوئیں۔زلزلے بھی‘ سیلاب بھی‘ ریاست صیغہ¿ غائب بنی رہی۔ صرف الخدمت جیسے اداروں نے ہی مدد اور بحالی کا کام کیا۔ ترکی میں اس کے برعکس ہے۔
پاکستان میں لوگ متاثرہ مقامات پر جاتے ہیں‘ جو سامان ملے جھپٹ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ملبے میں دبے شخص کا بازو کاٹ کر گھڑی‘ عورتوں کے کان کاٹ کر زیور لے اڑتے ہیں۔ مدد کا مادہ کسی کسی کے مادہ جینز میں ہو تو مدد ورنہ بس خدا کا نام ہے۔ باہر سے مدد آئے تو اسے راجہ بازار میں بیچ کر فارم ہاﺅس بنا لیتے ہیں۔
................
ٹراما میں انسان ہی نہیں‘ ہزاروں لاکھوں جانور بھی آئے اور ریسکیو کرنے والوں نے انہیں محض نکالا ہی نہیں‘ ٹراما سے نکالنے کیلئے مسلسل ان کے جسم سہلائے‘ گود میں لیا‘ زخمی جانوروں کا علاج کیا اور انہیں اچھی غذا دی۔ ترکی اور ہمارے معاشرے میں زمین آسمان کا یہ فرق پہلی بار دیکھا۔
ملبے کے ڈھیر سے ایک کتے کو نکالا گیا۔ دوسرے ڈھیر سے ایک بلی کو۔ دونوں جانور ایک دوسرے سے انسانوں کی طرح گلے ملے جیسے ایک دوسرے کو پرسہ دے رہے ہوں۔ باہم تشفی کا تبادلہ کر رہے ہوں۔ بچائے جانے والے جانوروں میں گدھے‘ بطخیں‘ گائیں اور مرغیاں بھی شامل تھیں۔ شمالی شام کے برباد ہونے والے البتہ زیادہ برے حالوں میں تھے۔ وہاں سرکار کی طرف سے امدادی نیٹ ورک بمنزلہ صفر کے تھا۔ جو بھی مدد کی‘ وہ ترکی اور عراق سے آنے والوں نے کی۔ صدر بشار الاسد کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے۔ وہ متاثرہ علاقے کا دورہ کر رہے ہیں اور حکومتی افسروں کے سنائے گئے لطیفوں پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ قہقہے لگانے کا فوٹو سیشن کرکے وہ واپس روانہ ہوئے۔ بس ایک ہی علاقے کا دورہ کیا۔ بشاشت قلبی کیلئے یہی ایک دورہ کافی تھا۔
................
عمران خان نے اپنی سیاسی پھلواری میں بیانیے کا پودا لگا رکھا ہے۔ روز اس پر ایک پھول کھلتا ہے۔ خان صاحب بھری دوپہر میں اسے نوچ کر مسل ڈالتے ہیں اور اگلے دن اس پودے پر نیا گل کھلاتے ہیں۔ گِل بیانیہ۔
ایک گل بکاﺅلی ہوتا ہے ایک گل بابونہ۔ اب یہ گل بیانیہ کھلانے والا نیا پودا ہے۔ تازہ پھول جس کو مسلا گیا ہے۔ اس بیانیے کا تھا کہ مجھے امریکہ نے نکالا۔ دس ماہ تک اس پھول کی پرورش کی اور گیارہویں مہینے یہ کہہ کر اس کے پتے بکھیر دیئے کہ میری برطرفی میں امریکہ کا کوئی ہاتھ نہیں۔ امریکہ نے توکچھ کیا ہی نہیں‘ جو کیا باجوہ نے کیا۔
خدا جانے اس ”سائفر“ کو اب کس توشہ خانے میں رکھا جائے گا۔ جسے خان صاحب جلسوں میں لہرا لہرا آکر دکھایا کرتے تھے اور بڑی ”دردے ناک“ قسم کی آہ و زاری کیا کرتے تھے کہ یہ ہے وہ دھمکی جو ڈیوڈ لو نے دی۔ خان صاحب جب امریکی دھمکیوں کا ذکر رقت آمیز لہجے میں کیا کرتے تھے تو بہت سے دوسروں پر بھی رقت طاری ہو جاتی تھی اور فضا ہم کوئی غلام ہیں کے نعروں سے گونج اٹھتی تھی۔اب یہ گونج بھی وہیں گم ہو گئی جہاں اس سائفر والے کاغذ کی راکھ گئی۔
................
ادھر خان صاحب اور باجوہ صاحب میں دھمکیوںکے تبادلے کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ ایک کہتا ہے میرے پاس دوسرے کی ایسی ایسی ویڈیوز ہیں۔ دوسرا کہتا ہے کہ میرے پاس پہلے کی ویسی ویسی ویڈیوز ہیں۔ لگتا ہے یہ ساڑھے تین سال ایک پیج پر رہتے ہوئے انہوں نے ایک دوسرے کو ویڈیوز بناتے ہی گزارے۔
ادھر خلق خدا بے تابی سے منتظر ہے کہ کب فریقین ایسی ایسی اور ویسی ویسی ویڈیوز ریلیز کرتے ہیں۔
غالب نے کہا تھا بن گیا، رقیب آخر جو تھا رازداں اپنا
اس مصرعے کا پس منظر کچھ اور تھا
یہاں معاملہ اور ہے
بن گئے رقیب آخر جو تھے رازداں باہم
اب یہ رازداریاں کھلنے کو ہیں۔
تماشا دیکھنے کیلئے پیسہ پھینکنے کی ضرورت نہیں‘ بس انتظار کی زحمت اٹھانا ہوگی۔
حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے ٹیکس بذریعہ آرڈیننس نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کے صدر عارف علوی اڑ گئے، کہا ،میں تو دستخط نہیںکروں گا۔ شوکت ترین باہر آگئے اور شوکت ترین کے بعد وہ مائی بھی یاد آگئی جو گاﺅں والوں پر برہم ہوکراپنا مرغا بغل میں دبا کر دوسرے گاﺅں چلی گئی کہ اب دیکھتی ہوں تمہارے گاﺅں میں صبح کیسے ہوگی۔ نہ مرغا ہوگا‘ نہ بانگ دے گا‘ نہ صبح ہوگی۔ حکومت نے آرڈیننس کے بجائے پارلیمنٹ سے منظوری لینے کا فیصلہ کر لیا۔ مائی اب مرغا بغل میں دبائے حیران کھڑی ہے۔