اور کتنا بوجھ ڈالا جائے گا؟؟؟


جو بھی آتا ہے ہے خواب دکھاتا ہے، سبز باغ دکھا تا ہے ہے، دور کو پاس دکھاتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، غلط بیانی کرتا ہے، بےبسی کا مذاق بناتا ہے، معصوم لوگوں کو بے وقوف بناتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ برسوں گذر گئے، دہائیاں گذر گئیں کہ عام آدمی کو شاید ہی سکون کی نیند آئی ہو۔ مڈل کلاس کی کلاس ختم کرنے کے لیے مختلف وقتوں میں حکمرانوں نے ظالمانہ اقدامات سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر گذرتا تنخواہ دار اور مالی اعتبار سے کمزور افراد کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ پہلے پی ٹی آئی نے تباہی کی، مہنگائی کی اور یہ کہا کہ سب کچھ نون لیگ کی وجہ سے ہو رہا ہے اب پی ڈی ایم کی حکومت ہے تو یہ سننے کو مل رہا ہے کہ ساری مہنگائی پاکستان تحریک انصاف کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ اس تباہی کی ذمہ داری صرف اور صرف عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پھر ماضی قریب میں ہونے والی مہنگائی بارے عمران خان کا موقف بھی مانا جائے۔کہنے کی حد تک تو یہ ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار یہ سب ہیں۔ ان سب کے غلط فیصلوں کی قیمت پاکستان کا عام آدمی ادا کر رہا ہے۔ اگر ملک مشکل میں ہے، ملک مشکل میں تھا تو پھر مشکلات کا اثر ان سیاست دانوں پر کیوں نہیں پڑا۔یہ سب تو پہلے کی طرح ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔ کسی کی فیکٹری بند نہیں ہوئی، کسی کے کاروبار کو فرق نہیں پڑا، سب اچھے بھلے منافع میں ہیں۔ہر وقت ملک کا نام لے کر عوام پر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، کیا ملک سے فائدہ صرف عام آدمی اٹھاتا ہے۔ ملک سے سب سے زیادہ فائدہ تو ان لوگوں نے اٹھایا ہے جن کی کی بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں، کئی کئی بنگلے ہیں، بیرون ملک بھی جائیدادیں ہیں، نہ بچوں کے معاشی مستقبل کی کوئی سوچ ہے ان کا تو سب کچھ ٹھیک ہے۔ مسائل تو عام آدمی کے ساتھ ہیں۔ پہلے دو وقت کی روٹی پوری نہیں ہوتی تھی اب بجلی کے بل کے لیے دعا کیا کریں گے۔ اب عوام پر مہنگائی کا ایک نیا بم گرانے لگے ہیں۔ عوام کو سادگی اپنانے کا مشورہ دے کر عوام کے پیسوں سے وزیران کرام، مشیران کرام کو گاڑیاں ملیں گی، ان کی گاڑیوں میں سرکاری پیٹرول استعمال ہو گا، ان کے موبائل بل ادا ہو گا، ان کی رہائش گاہ کے اخراجات پورے کیے جائیں گے، عوام کو سادگی کا مشورہ دے کر منتخب نمائندوں کے علاج کی سہولت عوام کے پیسوں سے ہوگی، اپنے منتخب نمائندوں کے فضائی سفر کا بوجھ بھی ووٹر برداشت کرے گا، اپنے منتخب نمائندوں کی سیکیورٹی کے اخراجات بھی ووٹرز کے ٹیکس کے پیسوں سے بھرے جائیں گے۔ اراکین اسمبلی بھلے اسمبلی میں نہ آئیں لیکن انہیں تنخواہ پوری ملے گا یہ تنخواہ کون ادا کرتا ہے۔ اگر حکومت عوام کو سادگی کا مشورہ دے رہی ہے تو پھر درجنوں افراد پر مشتمل کابینہ کیوں ہے، کیوں کم افراد سے کام نہیں چلایا جا سکتا، کیوں اراکین اسمبلی سرکاری گاڑیوں، ماہانہ تنخواہ، مراعات، مفت کے پیٹرول، موبائل اور دیگر سہولتوں کو ختم نہیں کرتے، کیوں اسمبلی کا اجلاس کھلے میدان میں نہیں ہو سکتا، کیوں بجلی اسمبلی کے اجلاس پر ضائع ہوتی ہے۔ کیوں وزرائ چھوٹی گاڑیوں پر سفر نہیں کرتے۔ کیوں سیکیورٹی کے بغیر گھوم نہیں سکتے۔ یہ ساری قربانی عوام نے ہی دینی ہے یا کوئی کام حکمرانوں نے بھی کرنا ہے، کیوں بازار جلد بند ہونے اور سرکاری دفاتر میں مسلسل چھ گھنٹے بغیر کسی وقفے کے کام کرنے کی عادت نہیں اپنائی جاتی، کیوں سرکاری دفاتر میں غیر ضروری طور توانائی ضائع ہوتی ہے، کیوں دفاتر کے اوقات کار کو ضرورت کے مطابق نہیں کیا جاتا۔ سب سے آسان ہے کہ عام آدمی پر بوجھ ڈال دیا جائے اور وہ کام حکومت بغیر سانس لیے کر رہی ہے۔ حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے والے خود بھی یہی ظلم کرتے رہے ہیں۔
اسحاق ڈار ڈالر قابو کرنے آئے تھے لیکن اسے ایسا آزاد کیا ہے کہ اب ڈالر دور دور سے دیکھ کر ہی خوش ہو رہے پیں۔ عوام کو ریلیف دینے آئے تھے لیکن ضمنی مالیاتی بل میں لگڑری اشیا پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بڑھاکر سترہ سے پچیس فیصد، شادی ہالز کی تقریبات کے بلوں پر دس فیصد ٹیکس عائد کرنے، سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کی بھی تجویز بھی دے ڈالی ہے۔
محصولات کا 170 ارب موجودہ اور پچھلا ٹارگٹ پورا کیا جائے گا، جبکہ پانچ سال پرانے ٹریکٹرز کی درآمد کی اجازت دے دی گئی ہے، کسانوں کے لیے 2000 ارب روپے کا پیکج دے چکے ہیں جس میں سے 1000 ارب روپے تک تقسیم کیے جا چکے ہیں، کسانوں کو زرعی آلات پر سستے قرضے دیے جائیں گے اور کسانوں کو کھاد پر 30 ارب روپے دیے جا رہے ہیں جبکہ یوتھ لون کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں، 75 ہزار سولر ٹیوب ویل لگانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور حکومت میں ان کے ساتھیوں نے کسے کیا دیا ہے، کسے کیا دینا ہے، عوام کو کیا دیا ہے، عوام سے کیا لینا ہے سب کچھ بتایا ہے لیکن کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ اس میں نیا کیا ہے یہ سلسلہ تو دہائیوں سے جاری ہے، ٹیکسز لگ رہے ہیں عوام سے پیسے لیے جا رہے ہیں لیکن حالت کیوں نہیں بدلی، ملک معاشی طور پر مضبوط کیوں نہیں ہو سکا، اگر مسئلہ نئے ٹیکس لگانے سے حل ہونے والا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا، اصل مسئلہ تو مالی بدانتظامی، بڑھتے ہوئے اخراجات اور حکمرانوں کے غلط فیصلے ہیں۔ قوم تو اس مرتبہ بھی قربانی دے گی لیکن ان قربانیوں میں حکمرانوں کا حصہ کہاں ہے؟؟

ای پیپر دی نیشن