اس بات سے کون لاعلم ہے کہ اس وقت پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے اور غریب آدمی کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول محال ہوچکا ہے۔ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل میں پھنسا ہے لیکن زرمبادلہ کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی آچکی ہے اور ملک افواہوں کی لپیٹ میں ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا مزید مہنگائی میں اضافہ کرنے کا مطالبہ ہے اور عام آدمی مزید مہنگائی کے طوفان کی آمد سے آنیوالی مشکلات کے خوف میں مبتلا ہے۔ بجلی‘ گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کی علانیہ اور غیرعلانیہ طویل لوڈشیڈنگ‘ گیس کی نایابی اور پیٹرول کے حصول کے لئے عوام کی پریشانی قابل دید ہے۔ اگر حکومت بجلی‘ گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی بہت زیادہ قیمتیں مقرر کرتی ہے تو ان قیمتوں پر ان سہولیات کی وافر فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہئے لیکن صورتحال یہ ہے کہ لوگ ان سب چیزوں کے حصول کیلئے انتہائی پریشان ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی 65 فیصد آبادی دیہات میں آباد ہے اور ان کا ذریعہ معاش زراعت سے وابستہ ہے لیکن ہمارے ملک میں جان بوجھ کر زراعت کو نقصان پہنچایا گیا اور ایک زرعی ملک خوراک میں خودکفالت حاصل کرلینے کے بعد ایک بار پھر خوراک درآمد کرنے پر مجبور ہوچکا ہے کیونکہ سیاستدانوں نے اپنے اقتدار کے دوران اس ملک سے انصاف نہیں کیا۔ اب اس قدر بھیانک حالات ہیں کہ خام مال درآمد کرنیوالی صنعتیں بتدریج بند ہورہی ہیں اور بدترین مہنگائی میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد بے روزگاری کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے۔
1971ءمیں پاکستان کے اس وقت کے سیاستدانوں نے بھی سب سے پہلے پاکستان کا نہیں سوچا بلکہ ذاتی اقتدار اور سیاست کی سوچ غالب تھی۔ یحیٰی خان نے پاکستان کی تاریخ کا شفاف ترین الیکشن کرایا تھا جس کے نتائج کھلے دل سے تسلیم کرنا ملک عزیز کو مضبوط کرنا اور آئین پاکستان کی پاسداری کرنا ہی حب الوطنی تھی۔ اکثریت حاصل کرنےوالی جماعت کو اقتدار دیا جانا چاہئے تھا لیکن اس وقت کے صدر یحیٰی خان سمیت تمام سیاسی قوتوں نے ملک کو ترجیح نہیں دی اور پھر بدقسمتی سے پاکستان دولخت ہوگیا۔آج بھی سیاستدانوں پر ذمہ داری ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور سب سے پہلے پاکستان کا سوچیں۔
بلوچستان میں موجود بے چینی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر وہاں کے عوام کو مطمئن کریں اور ان کو حقوق دیئے جائیں۔ گوادر پورٹ‘ سی پیک اور ریکوڈک سمیت دیگر قدرتی وسائل سے مکمل استفادے کیلئے ضروری ہے کہ بلوچستان کے عوام کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ تعصب سے بالاتر ہوکر سب سے پہلے پاکستان کی سوچ کے تحت ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں اور اگر سیاستدانوں نے ذاتی لالچ و اقتدار کو پس پشت رکھ کر وسیع ترین قومی مفاد میں اب بھی فیصلے نہ کئے تو ملک بچانے کیلئے کسی کو تو آگے آنا ہی ہوگا۔اس گھمبیر صورتحال میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام سیاستدان مل بیٹھ کر ملک کو اس بحران سے نکالنے کیلئے مشترکہ اعلانات کرتے اور ملک کی معاشی بحالی اور عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے جلد از جلد نکالنے کیلئے قومی ایکشن پلان مرتب کرکے متفقہ طور پر اس پر عملدآمد کا ہنگامی آغاز کیا جاتا اور مختصر مدت میں دلیرانہ فیصلوں کے ذریعے ملک کو اس گرداب سے نکالتے۔ سیاستدانوں کی اس ملک کے ساتھ دلی وابستگی اور سب سے پہلے پاکستان کو اولین ترجیح دینے کے دعوے اس وقت ہی تسلیم کئے جاسکتے ہیں جب عملی طور پر تمام سیاستدان ذاتی مفادات و اقتدار کی جنگ ترک کرکے ملک و عوام کےلئے تمام ضد و انا چھوڑ دیتے لیکن ابھی تک عملی طور پر ان کا رویہ غیر سنجیدہ و غیر ذمہ دارانہ ہے۔
ملک معاشی مشکلات کا شکار ہے اور ٹیلی ویژن پر سیاستدان ایک دوسرے کی کردار کشی میں مصروف ہیں۔ کسی کو یہ فکر نہیں کہ ہم مل بیٹھ کر ملک کو گرداب سے نکالیں۔ سیاستدان توشہ خانہ‘ استعفوں‘ اسمبلیاں تحلیل کرنے اور بچانے کے بعد اب الیکشن کرانے اور روکنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ حکومت بھی اپوزیشن لیڈرز پر مقدمات بناکر ان کو سبق سکھانے میں مصروف ہے ۔ حکومتی و اپوزیشن رہنما¶ں میں سے کسی کی اس جانب توجہ نہیں کہ ہم ایسا ماحول بنائیں کہ مل بیٹھ کر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگائیں اور عوام کو تسلی دیں کہ انشاءاﷲ عنقریب ملک کو ان مشکلات سے نکال لیں گے۔اب سوچنے کےلئے زیادہ وقت نہیں ہے اور اگر بروقت ملک کو بچانے کی سوچ لیکر سیاستدان اکٹھے نہ ہوئے تو وقت انکے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
عوام کو تسلی دینے والا کوئی نظر نہیں آرہا اور آئے روز اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی جانب سے بھی حالات کی عکاسی کیلئے مختلف ریمارکس سامنے آتے ہیں۔ اس صورتحال میں آخر کون ایسا کردار ادا کرے گا کہ تمام سیاسی قوتیں سب سے پہلے پاکستان کے ایجنڈے پر مل بیٹھیں اور تمام ذاتی ضد‘ انا و صوبائیت کو ترک کرکے قومی مفاد میں دلیرانہ فیصلوں پر اتفاق رائے پیدا کریں کیونکہ اگر ملک مضبوط ہوگا تو سیاست بھی ہوتی رہے گی۔ اگر سیاستدان اپنا موجودہ رویہ ترک کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو آئین میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے قیام کا طریقہ کار تلاش کرکے اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ عوام اس وقت تمام سیاسی قوتوں سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں اور یہ ملک کسی مسیحا کا منتظر ہے۔