پی ایس ایل‘ 25 کروڑ کی لائٹس پر 80 کروڑ خرچ نہیں کر سکتے ‘وزیراعلیٰ پنجاب کا رقم دینے سے انکار
انکار تو بنتا ہی ہے۔ کیا ویسے کھلاڑیوں کے ہوٹل سے لیکر سٹیڈیم تک کی سڑک پر بہترین لائٹس نہیں لگی ہیں۔کیا وہاں اندھیرا ہوتا ہے کہ اس روڈ پر لائٹس لگانے کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ وہ بھی اتنی زیادہ رقم پر اس ایونٹ کیلئے جبکہ بقول وزیراعلیٰ 25 کروڑ میں تو حکومت خود اس روٹ پر لائٹس لگا سکتی ہے تو 80 کروڑ کیوں دیئے جائیں۔ سابقہ حکمرانوںکی لکھ لٹ پالیسی کی وجہ سے اب لوگوں کے منہ کھل گئے ہیں۔ جبھی تو موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب نے پاکستان کرکٹ کونسل سے کہا ہے کہ وہ یہ لائٹنگ کے اخراجات خودادا کرے۔ ویسے بھی دنیا بھر میں سٹیڈیم میں ہی کھلاڑیوں کی رہائش کا بندوبست ہوتا ہے تاکہ ان کے آنے جانے کا وقت بھی بچے اور قومی خزانے پر بوجھ بھی نہ ہو۔ پاکستان میں بھی بڑے بڑے عالی شان سٹیڈیم ہیں۔ ان سے منسلک عمارتوں کے وسیع سلسلے میں ہی کھلاڑیوں کیلئے آرام دہ رہائشی کمرے بنائے جائیں۔ انہیں تمام مناسب بہترین سہولتیں دیں۔ اس طرح ہوٹل کے بھاری اخراجات میں بھی بچت ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی جب موسم اچھا ہو تو ڈے لائٹ میں میچ کرائے جائیں۔ قدرتی روشنی کی وجہ سے بجلی کے اخراجات میں بھی بچت ہوگی۔ ویسے بھی ہم ہر وقت بجلی کی قلت کا رونا روتے ہیں۔ پی سی بی بھی اپنے لچھن بدلے۔ معاشی بدحالی کو سامنے رکھے۔ اس کے مطابق کھیلوں کے ایونٹس منعقد کرے تاکہ اخراکات میں کمی لائی جا سکے۔ حالات خراب ہوئے تو پھر ہم یہ ایونٹس بھی نہیں کرا سکیں گے۔ کیا پی سی بی کے پاس اتنی رقم ہے کہ وہ لائٹنگ کیلئے اتنی بڑی رقم دے۔ ویسے بھی اتنی سخت سکیورٹی کے ساتھ کھلاڑیوں نے روشن سڑکوں پر ہی سفر کرنا ہے تو اضافی لائٹنگ کا شغل کیوں۔
٭٭........٭٭
قصور: وائلڈ لائف کے اے ڈی نے نایاب ہرن ذبح کرکے دوستوں کو کھلا دیا
یہ ہیں محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے افسروں کے کارنامے۔ اور کیا کیا کچھ ہوتا ہے اس محکمہ میں‘ اس بارے میں بے شک جنگلی جانور جو بے زبان ہوتے ہیں‘ بول تو نہیں سکتے مگر بولنے اور دیکھنے والے بہت کچھ دیکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بولتے نہیں۔ شاید دریا میں رہ کر مگرمچھوں سے بیر نہیں پال سکتے۔ نایاب جنگلی جانوروں کے،سائبریا سے آنے والے پرندوں کے بے دردی سے شکار کی اجازت کون دیتا ہے۔ ملک کے طول و ارض میں بچے کھچے ہرن‘ نیل گائے‘ سانبھر‘ تلور اور مرغابیاں کاشکار کرکے ان کے گوشت کی پارٹیاں اڑانے والے سب محکمہ وائلڈ لائف کے ہی دوست رشتہ دار ہوتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں ہم سندھ اور بلوچستان کا رونا کیا روئیں‘ پنجاب میں قصور کے علاقے عثمان والا میں لوگوں نے ایک نایاب ہرن کو زندہ پکڑ کر محکمہ وائلڈ لائف والوں کے سپرد کیا تو وہاں کے اے ڈی نے اسے ذبح کرکے دوستوں کو کھلا دیا۔ اب موصوف کہتے ہیں انہوں نے بولی دے کر ہرن قانونی طریقے خریدا۔ بندہ خدا سے کوئی یہ تو پوچھے کہ وہ گوشت مارکیٹ کا قصاب ہے جو جانور بولی دے کرخرید کر ذبح کر رہا ہے۔ اس کا کام جنگلی جانوروںکا تحفظ ہے‘ انہیں زندہ سلامت محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچانا ہے مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اب بہتر ہے حکومت اس اے ڈی وائلڈ لائف کو فوری طورپر بھاری جرمانہ کرکے گوشت مارکیٹ یا منڈی مویشیاں میں تعینات کرے تاکہ وہاں یہ خود بھی مزے اڑائے اور دوستوں کو بھی پارٹی دیتا پھرے۔
٭٭........٭٭
کھیت ختم کرکے سوسائٹیاں بنا دی جاتی ہیں‘ یہ ہماری اور بچوں کی بقاءکا مسئلہ ہے: لاہور ہائیکورٹ
اگر اس طرح ہمارے باقی ادارے بھی آنکھیں کھولیں‘ زرعی اراضی کی بربادی اور ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کی آبادی کی طرف توجہ دیں تو ہم اور ہماری آنے والی نسلیں بھوک اور قحط کی صورتحال سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ آبادی کے تناسب سے زعی رقبہ بہت کم ہے۔ پھر بھی ہم اسی رقبہ کو ختم کر رہے ہیں تو آنے والے چند سالوں میں زرعی اجناس کیا ہوا میں اگائی جائیں گی۔ اس وقت ہم شدید غذائی بحران کا شکار ہیں۔ آٹا‘ چاول‘ چینی‘ سبزیاں مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔ کل کو یہ کچھ بھی نہیںہوگا پورا ملک قحط میں مبتلا ہوگا۔ دنیا بھر میں زرعی اراضی کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ہاﺅسنگ سوسائٹیاں ویران‘ بنجر اراضی پر قائم کی جاتی ہیں تاکہ ان کا مصرف نکل آئے۔ مگر ہم کل سے بے نیاز شہروں کو آباد اور کھیتوں کو برباد کر رہے ہیں۔ لینڈ مافیا کاشتکاروں اور کسانوں سے اونے پونے داموں یہ زمینیں خریدتا ہے۔ وہاں ہاﺅسنگ کالونیاں بنا کر اربوں کماتا ہے مگر اس کی اجازت تو وہ ایل ڈی اے‘ اور دیگر سرکاری اداروںسے ہی لیتا ہے۔ یہ اجازت یونہی نہیں ملتی قانون کو قواعدوضوابط کو بلڈوز کرکے بھاری کمشن لیکر اجازت نامہ فروخت کیا جاتا ہے۔ حکومت اور متعلقہ ادارے سب کچھ جانتے ہوئے بھی نجانے کیوں خاموش ہیں۔ عدلیہ نے اب ایل ڈی اے کے ماسٹر پلان برائے لاہور کو معطل کر دیاہے تو اب نہایت سختی سے ہماری آنے والی نسلوں کی بقاءکی خاطر سخت قدم اٹھائے جائیں‘ کسی سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔ پورے ملک میںزرعی اراضی پر ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے۔ جب روٹی نہ ہوگی تو یہی مکان‘ بنگلے‘ کوٹھیاں مردہ خانے بن جائیں گے اور شاید مو¿رخ لکھیں گے کہ ان عظیم الشان شہروںمیں رہنے والے لوگ بھوک کی وجہ سے اپنے گھروں میں مردہ پائے گئے۔
٭٭........٭٭
مسلم کش فسادات کا بھانڈا پھوڑنے پر مودی سیخ پا‘ بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے
آجکل بھارت میں مودی حکومت کو مرچیں لگی ہوئی ہیں۔ اسے انگاروں پر چلنا پڑ رہا ہے۔ ہندو توا کے نام پر مسلم کش فسادات کرانے والوں کا سارا پول عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کچھ اس طرح کھول دیا ہے کہ اب نریندر قصاب ہو یا آدتیہ ڈھونگی ان دونوں کو سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی۔ بی بی سی کی نریندر مودی سرکار کے دور میں مسلم کش فسادات پر بنی اس ڈاکومنٹری فلم نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ بھارت کی مسلم دشمن سرکاری پالیسی بے نقاب کر دی ہے۔ اس سارے کام میں بی جے پی کے مکروہ ایجنڈے اور اس کے رہنماﺅں کے گھناﺅنے کردار کو دنیا اور عوام کے سامنے لانے پر اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پورے بھارت میں بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے مارنا‘ اس کے عملے کو ہراساں کرنا‘ ان کے ریکارڈ کی چھان بین کے نام پر ا نکم ٹیکس اہلکاروں کے تعاون سے انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس پر خود بھارت کے صحافیوں نے سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے مگر اس طرح کے ہتھکنڈوں سے کیا بھارت میں انتہاپسند ہندوﺅں کی طرف سے اقلیتوں خاص طورپر مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ زیادتیوں پر پردہ ڈالنا ممکن ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں حقائق اب زیادہ دیر چھپ نہیں سکتے۔ مساجد اور گرجا گھروں کو جلانے اور مقدس مقامات اور کتابوں کی بے حرمتی کو بے نقاب کرنے والی یہ ڈاکومنٹری فلم اس وقت دنیا بھر میں دیکھی جا رہی ہے جس کی وجہ سے مودی حکومت کو ہر جگہ شرمندگی اٹھانا پڑ رہی ہے۔