میاں انوارالحق رامے
سابق وزیر مملکت
anwarramy@gmail۔ com
عہد پرویزمشرف کی خامیوں اور خوبیوں کا جائزہ لینا لا حاصل ہے۔ مشرف نے ایک عظیم جرم کا ارتکاب کیا تھا جس کا کفارہ اس کا کوئی کارنامہ نہیں بن سکتا ہے۔ اس نے اپنی قوم کے سامنے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آئین و دستور کا پابند رہے گا۔ دفاع وطن کیلئے دیئے گئے اسلحہ و بارود کے بل بوتے پر منتخب وزیراعظم کو معزول کرکے حوالہ زنداں کردیا جس نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ملازمت سے سبکدوش کردیا تھا۔ ابتدا و انتہا تک یہی جرم عظیم مشرف کا سب سے بڑا گناہ تھا۔ آئین۔ پارلیمان،جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرتے ہوئے سیاستدانوں, عدالتوں۔ ججوں کو مسلسل نو پرس تک صلیب پر لٹکائے رکھا۔ یہ سب جرائم اس جرم عظیم کی ذیلی ناپسندیدہ مکروہات تھیں۔ مشرف کا ظالمانہ غیر آئینی عہد ایسے مکروہات، منکرات اور لغویات,کا مرقع تھا ۔ ابتدا میں سب سے پہلے پاکستان کا پرفریب جبہ مکاری پہنے وہ اپنی ذات کے گرد رقص کرتے۔ اپنے صنم کی پرستش کرتا رہا اور جب بھی کسی سرکاری دستاویز پر دستخط ثبت کرتا تو نیچے اس کے سب عہدے انصرام سے لکھے جاتے۔ جنرل، چیف آف ارمی سٹاف ، چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، چیف ایگزیکٹو، صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان سلگتی ہوئی خواہش اقتدار نے کبھی اسے پرسکون رہنے دیا, اس کی خواہش ہوس کا ظرف کبھی لبا لب نہی ہوسکتا۔ سب سے پہلے پاکستان کا ورد کرتے اور سب کچھ کرتے ہوئے اس کے ماتھے پر کبھی تلملاہٹ پیدا نہی ہوئی اسے کبھی احساس نہی ہوا کہ وہ جرم عظیم کا مرتکب ہوا ،اسے کبھی اپنے اعمال پراگندہ پر ندامت، خلش، پشیمانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وردی اتر جانے اور آبنوس چھڑی جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد ہونے کے باوجود اس کا کوئی بال بیکا نہی کر سکا۔ عدالت کو فرد جرم عائد کرنے کیلئے کن کن رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا لڑا سب پر عیاں ہے ۔ ضمانت منسوخ ہوئی تو طویل و عریض اس کا پر تعیش فارم ہاؤس اس کی جائے پناہ ٹھرا۔ عدالت سے گریز ناگزیر ہو گیا تو مچلتی سائرن بجاتی گاڑیوں کے جلو میں راولپنڈی کے آرمی ہسپتال میں پہنچ گیا جس میں قدم رکھنا تمام سول اداروں کیلئے شجر ممنوع تھا۔ ہسپتال اپنی بیماری اپنے ڈاکٹرز۔ اپنی لیبارٹریز، اپنے نسخے اپنے ٹیسٹس، اپنی شو منتر رپورٹیں، اپنے اعلامیے، نصف درجن مقدمات چلتے رہے، کسی عدالت کا کوئی حکم، اس کے محفوظ قلعے کے طرف پرواز نہی کرسکا۔ یہ نواز شریف جیسے بطل حریت کا حوصلہ تھا کہ سودوزیان کے تقاضوں اور اقتدار کی لذتوں سے بے پرواہ ہوکر پہلی بار آئین کی شق 6 کو حرکت میں لایا گیا۔ دوست احباب سمجھاتے رہے کہ زیاں کاری اور نقصان کی اس راہ پر مت چلو, لیکن وہ موقف پر ڈٹا رہا۔ جہاں تک کہ وزیر اعظم کے گرد شکنجہ کس دیا گیا اور مشرف کی راہیں کشادہ کر دی گئیں۔ جب مشرف کو آئین شکنی پر موت کی سزا سنائی گئی تو ملکی سرحدوں سے ہزاروں کوس دور عافیت کدوں تک پہنچ چکا تھا۔ پاکستان کی سرزمین آئین ہر سزائیں بھگتنے کیلئے سیاست دان اور وزرائے اعظم آسان چارہ ہیں۔ سیاستدانوں کی چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کو اچھالنے والوں نے چہروں پر کالک ملنے اور جیلوں میں ٹھونسنے والے اس نظام قانون و انصاف کے کل پرزوں میں کسی کو یارانہ تھا کہ وہ مشرف کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا۔ سیاست دانوں پر آدم خور کی طرح جھپٹنے والے خونخوار نیب نے کبھی کوئی چھان بین کی اس ناہنجار کے کھاتون میں کیا کچھ قومی خزانے سے لوٹا ہوا مال موجود ہے۔ انصار عباسی تحقیقات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے بنکوں میں پرویز مشرف کے تیس لاکھ ڈالر اور پانچ کروڑ درہم پڑے ہوئے ہیں۔ حسب لگانے والے حسب لگا سکتے ہیں کہ کتنے ارب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جائیداد کا وسیع سلسلہ کسی منی ٹریک کا متقاضی نہی ہے۔ کچھ مفاد پرست آج بھی اس کی بلائیں لے رہے ہیں ۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے اپنے اپنے ضمیر کی بات ہے اس کیلئے دعا کریں۔ جامعہ حفصہ پر ہونے والے مظالم پر خاموش رہیں، اکبر بگتی کو بھول جائیں۔ اس کی قبر کو عظیم الشان مقبرے میں بدل کر آستانہ عالیہ کے مجاور بن جائیں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن مشرف کی آئین شکنی کو آب زمزم کا غسل بھی پاکیزہ نہیں بنا سکتا۔ اس نے مارشل لاء کے بعد اپنا پہلاخطاب قومی ترانے سے کیا تھا۔ کم و بیش 23 برس بعد اس کا تابوت قومی پرچم میں لپیٹ کر مٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ قومی ترانے سے لیکر قومی پرچم میں لپیٹنے کی طویل داستان ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے اپنی عزت کو خاک میں ملانے کی وجہ سے دست دعا اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ آیات قرآنی سے مزین حال میں قائد اعظم کی تصویر خاموشی سے مسکرا رہی تھی کہ اس کے تخلیق کردہ وطن میں آئین کو بے آبرو کرنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہی ہے۔
پرویز مشرف وہاں چلے گئے جہاں سب کو جانا ہے۔ موت کو پہلے ہر انسان بھلائے رکھتا ہے انسان کا بدن لکڑی کے تختے پر ہو یا قومی پرچم میں لپٹا ہوا ہو دونوں ٹنوں مٹی میں بے بسی کے عالم میں دفن ہو جاتے ہیں۔ انسان کا اگلا سفر بڑا مشکل و دشوار ہوتا ہے نامہ اعمال کے نیک و بد کی نشاندہی کرنے والے فرشتوں کے لئے کوئی پی سی او جاری نہی کیا جا سکتا مرضی کے فیصلوں کیلئے ارشاد حسین تراشا نہیں جا سکتا اور نہ ہی عبدالحمید ڈوگر قدرت کے دائمی اور لازوال آئین کو کاغذ کا حقیر پرزہ سمجھ کر ہوا میں نہیں اڑا یا جا سکتا۔ لق و دق کے اس سفر بے مہربان میں نہ کوئی سایہ ہوتا ہے نہ ہی کوئی سایہ ابر رواں, مرغوب کرنے کیلئے نہ کندھے پر چمکتے مہکتے تمغے ہوتے ہیں اللہ کی عدالت عدل و انصاف سے جزا سزا کا فیصلہ دیتی ہے۔ جزا و سزا کا انحصار بیاض عمل پر ہوتا ہے۔