احمد شاہ کا لاہور پڑاؤ

 آئینہ 
    محمد شعیب مرزا
1747ء میں نادر شاہ افشار کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی جنہیں احمد شاہ درانی بھی کہا جاتا ہے کو افغانستان کا شاہ منتخب کیا گیا۔ احمد شاہ کو جدید ریاست افغانستان کے بانی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ نادر شاہ افشار کی فوج میں سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوا اور بہت جلد ابدالی دستے کا کمانڈر بن گیا جو چار ہزار ابدالی پشتون سپاہیوں کا گھڑ سوار دستہ تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے بعد ہندوستان کی مغل اور مرہٹہ سلطنت کو مشرق کی طرف، فارس کی منتشر سلطنت افشاری کو مغرب کی طرف اور بخارا کے خانات کو شمال کی طرف دھکیل دیا۔ کچھ سالوں میں اس نے مغرب میں خراسان سے لے کر مشرق میں کشمیر اور شمالی ہندوستان تک اور شمال میں آمو دریا سے لے کر جنوب میں بحیرہ عرب تک اپنا اقتدار بڑھا لیا۔ احمد شاہ نے چالیس ہزار فوج کے ساتھ درہ خیبر کو عبور کیا اور بغیر کسی مخالفت کے پشاور پر قبضہ کر لیا۔ 1748ء میں اس نے لاہور کو جذب کر لیا تھا۔ 1749ء میں مغل حکمرانوں کو سندھ، بحر ہند سمیت پنجاب کے تمام حصوں و چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی کے واقعات مجھے احمد شاہ آف کراچی کے کام کو دیکھ کر یاد آئے۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ گزشتہ کئی سال سے کراچی میں بین الاقوامی ادبی کانفرنسیں منعقد کر رہے تھے۔ ان کانفرنسوں کی اندرون و بیرون ملک دھوم ہوتی تھی کیونکہ بہت سے ممالک سے شاعر اور ادیب ان میں مدعو کیے جاتے تھے۔ آمد و رفت اور قیام و طعام آرٹس کونسل کی طرف سے ہوتا تھا۔ ہر ادیب شاعر کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کرے۔ محمد احمد شاہ کو بھی احمد شاہ ابدالی کی طرح مزید فتوحات کی سوجھی تو انہوں نے دس تا بارہ فروری لاہور میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے انعقاد کا ارادہ کیا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل (الحمرا) ذوالفقار علی زلفی سے مشاورت ہوئی تو انہوں نے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ یوں احمد شاہ نے اپنی پوری فوج یعنی ٹیم کے ساتھ کراچی سے کوچ کیا اور لاہور میں پڑاؤ ڈال لیا۔
الحمراء کے تمام ہال، گیلریاں، وسیع لان ہر طرف تزئین و آرائش شروع ہو گئی۔ لاہوری تو پہلے ہی میلوں ٹھیلوں کے شوقین ہیں۔ وہ بھی اس فیسٹیول کا انتظار کرنے لگے۔ الحمرا کے علاوہ پنجاب بینک کے صدر ظفر مسعود نے اس کے انعقاد کے سلسلے میں خصوصی تعاون کیا تھا۔ بینکوں کو اس طرح کے ادبی پروگراموں کی سرپرستی کرنی چاہئے۔ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ نے بھی اچھی روایت قائم کر رکھی ہے اور گزشتہ کئی سال سے ادب کی مختلف اصناف پر یو بی ایل لٹریری ایوارڈ اور دو دو لاکھ روپے انعام دیے جاتے ہیں۔ بینک کے صدر شہزاد جی دادا نے آئندہ مزید کیٹگریز میں ایوارڈ دینے کا اعلان کیا جو کہ خوش آئند ہے۔ ظفر مسعود اور شہزاد جی دادا سے گزارش ہے کہ پاکستان میں تعمیر پاکستان پبلی کیشنز اینڈ فورم اور اکادمی ادبیات اطفال جیسی غیر سرکاری ادبی تنظیمیں نہایت محدود وسائل کے ساتھ چھ سال سے بچوں کے ادب پر کانفرنسیں کر رہی ہیں ان کو بھی سپانسر کرنا چاہئے تاکہ بچوں کے لئے لکھنے والے ادیب زیادہ بہتر طریقے سے بچوں کو دلچسپ ادب فراہم کر سکیں۔
بات ہو رہی تھی پاکستان لٹریچر فیسٹیول کی۔ پاکستان کے تمام بڑے شاعر، ادیب، صحافی، دانشور اور گلوکار اس میں شریک ہوئے۔ نام لکھنے شروع کیے تو فہرست طویل ہو جائے گی۔ افتتاحی اجلاس میں فتح محمد ملک، افتخار عارف، نیر علی دادا، کشور ناہید، پیرزادہ قاسم، منور سعید، عامر میر، ظفر مسعود، کامران لاشاری اور دیگر کئی شخصیات نے شرکت کی۔ کلیدی خطبہ انور مقصود اور فقیر اعجازالدین نے پیش کیا۔ نظامت ہما میر کی تھی جبکہ خطبہ استقبالیہ محمد احمد شاہ (ستارہ امتیاز) نے پیش کیا۔ نگران صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر الحمرا میں آچکے تھے۔ احمد شاہ نے ان سے کہا کہ آپ اندر تشریف رکھیں۔ انور مقصود صاحب آرہے ہیں میں ان کو لے کر آتا ہوں تو عامر میر نے کہا کہ وہ ہمارے مہمان ہیں میں خود باہر جا کر ان کا استقبال کروں گا اور وہ احمد شاہ کے ساتھ باہر جا کر ان کو ساتھ لے کر اندر آئے جو ان کے بڑے پن کا ثبوت ہے۔ پروگرام کی ترتیب یوں تھی افتتاحی اجلاس کے بعد اکیسویں صدی کے تہذیبی چیلنج، سہیل احمد (عزیزی) کی باتیں احمد شاہ کے ساتھ، موسیقی علی عظمت، سائیں ظہور اور دیگر۔ افتتاحی اجلاس میں امجد اسلام امجد نے شرکت کرنا تھی لیکن ان کا اچانک انتقال ہو گیا۔ ان کی نشست پر ان کی تصویر رکھی گئی اور ان کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ دوسرے دن اردو فکشن میں نیا کیا، اکیسویں صدی میں پنجابی ادب، فرید سے فرید تک، عوامی دانشوری کی روایت، عاصمہ شیرازی کی کتاب ’’کہانی بڑے گھر کی‘‘ کی تقریب رونمائی، بچوں کے ادب کا خصوصی سیشن جس کی صدارت خالد مسعود خان، نظامت رضی الدین رضی جبکہ راقم محمد شعیب مرزا، اختر عباس، فہیم عالم، ندیم اختر اور عطرت بتول نے شرکت کی۔ کراچی کانفرنس میں بھی بچوں کے ادب کا سیشن رکھا جاتا ہے۔ احمد شاہ سے گزارش ہے کہ بچوں کے ادب کے سیشن میں بھی مختلف صوبوں کے ادیبوں کو مدعو کیا کریں تاکہ ان کو آپس میں مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ خصوصی گفتگو حامد میر نوجوانوں کے نام نظامت احمد شاہ، پنجابی سیشن میں بھناں دلی دے کنگرے مستنصر حسین تارڑ نے اپنے ناول بارے گفتگو کی۔ لاہور پُرکمال، کتابوں کی تقاریب رونمائی، مشرقی پاکستان ٹوٹا ہوا تارا مصنف الطاف حسن قریشی۔ نئے نقاد کے نام خطوط،مصنف ناصر عباس نیر، نئے زمانے کا شاعر علی زریوں نظامت یاسر حسین، میٹ دی سپر سٹار شان سے بات چیت نظامت بی گل ، ٹی وی پاکستانی سماج کا ترجمان، اس میں منور سعید اور نورالہدیٰ شاہ کی گفتگو پسند کی گئی۔ پاکستان آرٹ کے 75 برس، یادگار زمانہ ہیں یہ لوگ، موسیقی کمالیہ (یوکرین) علی ظفر اور دیگر۔ نئی شاعری کے نئے امکانات، پنجاب کی لوک داستانیں، تعلیم کا سفر آگے یا، سرائیکی زبان و ادب امکانات و رجحانات، میٹ دی سپر سٹار علی ظفر نظامت یاسر حسین، فواد حسن فواد کی کتاب کنج قفس اور شاہد ندیم کی ہم دیکھیں گے، افتخار عارف کی سخن افتخار، بری عورت کی کتھا اور تازہ نظمیں کشور ناہید نظامت رضا نعیم، آرٹ میں نیا کیا۔ انور مقصود کا نیا پاکستان، اختتامی اجلاس، می رقصم ناہید صدیقی، موسیقی ساحر علی بگا، نتاشہ بیگ، عاصم اظہر اور دیگر۔ کل پاکستان مشاعرہ، مشاعرے اور تمام سیشنز میں تمام ہال کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے لوگ سیڑھیوں پر بیٹھ کر اور ہالز کے باہر کھڑے ہو کر پروگرام سنتے رہے۔ بک فیئر میں بہت سے ناشرین نے کتابوں کے سٹال لگائے تھے۔ احمد شاہ اور کراچی آرٹس کونسل کے عہدیداران بھی فیسٹیول میں لاہوریوں کی کثیر تعداد میں شرکت پر حیران اور خوش بھی تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ تو امید تھی کہ فیسٹیول کامیاب رہے گا لیکن اس قدر کامیاب رہے گا اس کا اندازہ نہیں تھا۔ احمد شاہ نے زندہ دلان لاہور کا شکریہ ادا کیا۔ سندھ کے وزیر تعلیم، ثقافت، سیاحت و آرکائیو سید سردار علی شاہ، تینوں دن فیسٹیول میں موجود رہے اور انہوں نے تمام مندوبین کو پُرتکلف عشائیہ بھی دیا۔ بعض لوگوں نے ادبی پروگرام کا نام انگریزی میں رکھنے اور موسیقی پر اعتراض کیا تو احمد شاہ نے کہا کہ ہم نوجوانوں کو شوگر کوٹڈ ادبی رجحان دے رہے ہیں جو موسیقی سننے آئے گا وہ کتابوں کے سٹال پر بھی جائے گا اور ادبی سیشنز میں بھی شرکت کرے گا۔ ان کی بات واقعی صحیح ثابت ہوئی اور نوجوانوں نے تمام سیشنز میں بھرپور شرکت کی۔
احمد شاہ نے اگلے پڑاؤ ملتان، گلگت اور دیگر صوبوں کے علاوہ بیرون ملک ہونے کا بھی اعلان کیا۔ ہم ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں۔
٭…٭…٭ 

ای پیپر دی نیشن