شوکت ورک
موت برحق ہے اور ہم سب اپنے اپنے مقررہ وقت پر اس کا ذائقہ چکھیں گے تاہم اس سے بہت بہتر مقام ہمارا منتظر ہے۔ ہم سبھی نے اس عارضی اور فانی دنیا کو ترک کرتے ہوئے اپنے معبود برحق کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ جس نے مجھے اورآپ کوخلق کیا۔ صمیم قلب سے دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں اور ہمارے پیاروں کو کامل ایمان کی حالت میں زندگی اور کامل ایمان کی حالت میں شہادت والی موت عطا فرمائے ۔ (آمین)
وطن عزیز کے ممتاز کالم نگار، مقبول ڈرامہ نگار، منفرد اسلوب کے شاعر اور گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہور کے سابق پروفیسر امجد اسلام امجد 10فروری 2023 جمعتہ المبارک کے روز 79برس کی عمر میں حق رحمت سے جا ملے۔4 اگست 1944 کو لاہور میں ان کی ولادت اور شہر لاہور میں ان کی تدفین ہوئی۔ وہ ایم اے او کالج سمیت لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں میں پاکستان کے مستقبل کے معماروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے رہے۔ امجد اسلام امجد کو ہم سے بچھڑے ابھی چند روز ہوئے تھے کہ معروف اداکار، صداکار، ہدایتکار اور ٹی وی میزبان ضیامحی الدین بھی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ضیا محی الدین 20جون 1931ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، انہوں نے91 برس عمر پائی اور 13 فروری 2023 ء کو اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے، انہیں 2012ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے کہ
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کیلئے
باوفا اور باصفا امجد اسلام امجد کی وفات کا سنا تو راقم کا دل بجھ گیا، ان کے ساتھ خوشگوار ملاقاتوں کے مناظر نگاہوں میں گھوم گئے۔ ٹی وی پرامجد اسلام امجد کے انتقال کی خبر نشر ہوئی تو یوں لگا راقم کے دل پر نشتر چل گیا ہو، ان کی یادوں کی پوٹلی کھلتی چلی گئی۔ ان کی شخصیت اوصاف حمیدہ کا مجموعہ تھی، وہ باکمال اور باجمال انسان تھے۔ راقم کی دعوت پر ڈاکٹر اے کیوخان ہسپتال ٹرسٹ کی متعدد تقریبات میں امجد اسلام امجد کی تشریف آوری ناقابل فراموش ہے، انہوں نے راقم کی درخواست پر کسی معاوضہ کے بغیر ہمارے ادارے ڈاکٹر اے کیوخان ہسپتال ٹرسٹ کیلئے ایک گیت بھی لکھا جو پاکستان کے مایہ ناز گلوکار اور نصرت فتح علی خان کے جانشین راحت فتح علی خان نے گایا تھا۔ اس پر اثر اور پرتاثیر گیت کے چند اشعار پیش خدمت ہیں
خلق خدا کی خاطر رحمت کی رہ گزر میں
ہم سب ہیں ساتھ ان کے خدمت کے اس سفر میں
کیا راستہ بنایا عبدالقدیر خان نے
ہر ہر قدم پہ جس کے برکت کے ہیں خزانے
آو مل کے ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالیں
ہر جان ایک جہان ہے ہر جان کو بچالیں
راقم کو ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور امجد اسلام امجد کے مابین ون آن ون ملاقات کا اہتمام کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ امجد اسلام امجد کی وفات پر علم و ادب سے وابستہ گھرانوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ان کی نماز جنازہ اور تجہیز و تدفین میں پورا شہر امڈ آیا تھا، انہیں ایک قومی ہیرو کی حیثیت سے رخصت اور سپرد خاک کیا گیا۔ امجد اسلام امجد مرحوم نے اردو ادب کو نیا انداز دیا اور اپنی خداداد تخلیقی صلاحیتوں سے نکھار دیا۔ پی ٹی وی کے چھت تلے راقم اور میدان قلم و قرطاس کے قدآور شہسوار امجد اسلام امجد کا سودوزیاں سے بے نیاز اور باہمی احترام پر مبنی تعلق شروع ہوا جو وقت کے ساتھ گہرا ہوتا گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں پی ٹی وی میں پروڈیوسر تھا تو اکثرامجداسلام امجد کے ساتھ ’’بیٹھک‘‘ ہوا کرتی تھی اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا رہا۔ وہ شفیق و مہربان اور اعلی درجے کے میزبان تھے، ضیافت اور نصیحت کرنے کے معاملے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کی طبیعت میں سادگی، آسودگی، نرمی اورحلیمی ان کا طرۂ امتیاز تھی۔ ہمارے معاشرے میں اسلامیت، انسانیت، پاکستانیت اور اخلاقیات کے فروغ کیلئے پی ٹی وی اور امجد اسلام امجد مرحوم کا کلیدی کردار ہمارا سرمایۂ افتخار ہے جو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پرویز مشرف کا دور ہماری صحافت کیلئے انتہائی نیک فال تھا، اس دورمیں ایک کے بعد ایک نجی چینل اپنے قدم جماتے، پر پھیلاتے اور آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں میں اڑان بھرتے نظر آئے۔ یہ نجی چینل تعداد کے اعتبار سے اب سینکڑوں میں ہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی پی ٹی وی کی ایک منفرد شناخت اوراہمیت برقرار ہے، آج بھی فیملی چینل سمجھا جاتا ہے اور سنجیدہ لوگ اسے دیکھنے پسند کرتے ہیں۔ پی ٹی وی نے ان گنت شہرہ آفاق پلے پروڈیوس کئے اور اپنا منفرد ٹرینڈ سیٹ کیا۔ ٹی وی کے اداکاروں، گلوکاروں اور صدا کاروں کو دنیا بھر میں عزت اور شہرت ملی۔
امجد اسلام امجد نے اپنے علم اور قلم سے اردو ادب کی ہر صنف پر انمٹ نقش چھوڑے، ان کی شاعری میں روح کی آبیاری اور ایک سرشاری تھی جو قاری کو جذبات و احساسات کے ایک زندہ و تابندہ جہان کی جانب بہا اور پروں کے بغیر اڑا لے جاتی تھی۔ وہ اپنی شاعری، نثر اور ہر ایک منفرد تحریر سے معاشرے میں تحریک پیدا کرتے تھے، بیشک ان کا طرز تحریر عہد حاضر کے ادیبوں، شاعروں اورکالم نگاروں کیلئے مشعل راہ ہے۔ ان کی تحریر ہر فرد اورطبقہ کیلئے تدبر اور تدبیر کا کام کرتی تھی۔ امجد اسلام امجد کی وفات سے اردو ادب ایک پائیدار چھت بلکہ سائبان اور باغبان سے محروم ہوگیا ہے۔ ان کی شخصیت اور تحریروں میں ایک سحر تھا، وہ نوجوان نسل کی بہترین تعلیم و تربیت کے حامی تھے اور وہ زندگی بھر اپنے اس مشن کی تکمیل کیلئے کوشاں رہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں امجد اسلام امجد نے کا لکھا ہر شہرہ آفاق پلے ملک بھر میں پی ٹی وی پر انتہائی ذوق وشوق سے دیکھا جاتا تھا۔ امجداسلام امجد نے اپنی تحریروں سے اسلامی روایات، اخلاقیات اور انسانیت کو فروغ دیا۔ امجد اسلام امجد اپنی ذات میں ایک عہد تھے جو لحد میں اتر گیا لیکن وہ اپنے مداحوں کے دل سے کبھی نہیں اتریں گے۔ گورنمنٹ ایم اے اوکالج کے شعبہ اردو کا بلاک امجد اسلام امجد کے نام سے موسوم کیا جائے ۔
امجد اسلام امجد اردو ادب کیلئے شجر سایہ دار اور قلم قبیلے کا سرمایہ افتخار تھے۔ ان کی وفات کے بعد پاکستان میں اردو ادب کو نیا ’’وارث‘‘ملنے میں یقینا بہت دشواری ہوگی۔ ’’وارث‘‘ کی کاسٹ میں شامل کرداروں کوجو عزت اور شہرت اور پذیرائی ملی وہ اپنی مثال آپ تھے۔ وارث کے چوہدری حشمت خان یعنی محبوب عالم اس کردار کے بعد واقعی پورے عالم کے محبوب بن گئے۔ ’’وارث‘‘ کے فردوس کا ’’جمال‘‘ اوراس کے فن کا سحر بھی آج بھی بر قرار ہے، اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے شفائے کاملہ عاجلہ اور عمر خضر فردوس جما ل کا مقدر ہو اوروہ بہت جلد جام صحت نوش کریں۔ وہ زندگی بھر علم و ادب کے گہرے’’سمندر‘‘ میں غوطہ زن اور اپنے مداحوں کے ذوق مطالعہ کیلئے نت نیا گو ہر تلاش کرتے رہے۔ انہوں نے زندگی بھر ایک روشن ’’دن‘‘ کی مانند جہالت کے اندھیروں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی۔
امجد اسلام امجد کی منفرد تخلیقات اور تصنیفات اردو ادب کاروشن باب ہیں۔ امجد اسلام امجد نے زندگی بھر ادب کے معیار پر سمجھوتہ اور اپنے جذبات واحساسات کے اظہار کیخلاف کبھی کسی قسم کا ’’فشار‘‘ قبول نہیں کیا۔ ان کا ادب پڑھ کر لوگوں نے اپنی قابل رشک اقدار و روایات سمیت ایک دوسرے کا ادب کرنا سیکھا جبکہ عہد حاضر کے متعدد نام نہاد ادیب اپنا اپنا چورن بیچنے کیلئے عوام کو بے ادب اور بیوقوف بنا رہے ہیں۔ امجد اسلام امجد مرحوم ایک قابل قدر معلم اور قلم قبیلے کے سرخیل تھے ،طلبہ وطالبات کو ان کی جاندار اور شاندار تحریروں سے بہت کچھ سیکھنے میں مدد ملے گی۔ امجد اسلام امجد نے اپنی تحریروں سے کئی کرداروں کو زندگی دی اور اب وفات کے بعد ان کی جاندار تحریریں انہیں زندہ رکھیں گی۔