ٓاسمبلیوں سے استعفے اور بار بار الیکشن کا انعقاد سیاسی و معاشی عدم استحکام کا باعث

فرحان انجم ملغانی:
 ملک میں جاری سیاسی رسہ کشی اور آئی ایم ایف کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی کے مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچنے کے باعث عوامی مسائل اور مہنگائی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔یہ غیر یقینی صورتحال ملکی معیشت کے لئے بھی زہر قاتل بنی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اور دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے ذریعے حکومت پر عام انتخابات کیلئے دباؤ بڑھا دیا گیا ہے مگر اتحادی حکومت قبل از وقت انتخابات کیلئے رضامند نہیں بلکہ ملک کی معاشی صورتحال اور امن وامان کی صورتحال کو جواز بناکر انتخابات میں مزید تاخیر کے بیانات سامنے آرہے ہیں جبکہ دوسری جانب پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے بعد وزیراعلی بلوچستان کی طرف سے بھی اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن زیر غور لانے کا عندیہ دیدیا گیا ہے جس سے اتحادی حکومت کیلئے مسقبل قریب میں مزید چیلنجز دکھائی دے رہے ہیں ۔
 ملک میں دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں الیکشن نہ کرانے کی صورت میں سر اْٹھاتا آئینی بحران حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دے گا جبکہ ضمنی الیکشن اور جنرل الیکشن ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے امیدوار وں کے ساتھ ساتھ عوام بھی  ابہام کا شکار ہے اس   حوالے سے سیاسی سرگرمیوں اور انتخابی مہم میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا  پاکستان مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے ملک بھر میں ورکرز کنونشن کے انعقاد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے یہ ان کی طرف سے آنے والے الیکشن کے حوالے سے اپنے ورکرز کو متحرک کرنے کا پروگرام ہے  جبکہ جن حلقوں میں ضمنی الیکشن ہونے ہیں وہاں کے امیدواروں بارے بھی مشاورت کی جارہی ہے ناراض کارکنوں کو منانے کا سلسلہ بھی جاری ہے، ملک کے دیگر حلقوں کی طرح ملتان میں بھی تین حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں ان میں پی ٹی آئی پاکستان مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک لبیک کے امیدوار شامل ہیں قومی اسمبلی کے حلقہ 158 میں سابق حریف ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے ہیں سید جاوید علی شاہ ابراہیم خان عمران شوکت سید زین علی شاہ عطا اللہ شاہ بخاری سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید عبدالقادر گیلانی، اللہ نواز جبکہ تحریک لبیک کی جانب سے سید ظہور گیلانی نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے ابراہیم خان گزشتہ الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے اس حلقے میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس بار اپنی جگہ اپنے بڑے بیٹے عبدالقاد گیلانی کو میدان میں اتارا ہے قومی اسمبلی کے حلقہ 156 پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی ان کے بیٹے زین قریشی اور رانا محمود الحسن نے کاغذات جمع کروائے ہیں جبکہ قومی اسمبلی کے حلقہ 155 میں پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے اور سابق وزیر مملکت ملک عامر ڈوگر پاکستان مسلم لیگ ن کے شیخ طارق رشید ملک انور علی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سابق ایم پی اے ملک عثمان بھٹی نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں جبکہ سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نور حسین ڈیہڑ کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے گئے کاغذات جمع کروائے کے باوجود امیدوار اور ووٹرز دونوں ابہام کا شکار ہیں کہ الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں اس وجہ سے ابھی تک سیاسی گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آرہی کئی امیدوار ملک میں آئے روز بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوام کے پاس جانے کترا رہے ہیں پی ٹی آئی کی جانب سے بھی صرف ڈیروں پر محدود تعداد میں سپورٹرز کو اکٹھا کر کے میٹنگز کی جارہی ہیں جبکہ باقی سیاسی پارٹیوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
 اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں 90 روز کے اندر انتخابات کرانے بارے بحث بھی جاری ہے اس حوالے سے سابق گورنر پنجاب اور معروف قانون دان ملک محمد رفیق رجوانہ کا کہنا ہے کہ آئین میں اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر یا اسمبلیوں کی تحلیل پر 90 روز میں الیکشن کرانے کا کہا گیا ہے تاہم الیکشن نہ کروائے جانے پر آئین خاموش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئین نے  اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد مقررہ مدت میں الیکشن کرانے کی ایک مخصوص میعاد مقرر کی ہے تاہم آئین  نے اس مقررہ میعاد میں الیکشن نہ کروانے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس سے  یہ ثابت ہوتا ہے کہ مقررہ مدت کے بعد الیکشن کا انعقاد کوئی غیر قانونی عمل نہیں کہلائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں اب  سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے۔ الیکشن بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے لیے اتفاق رائے کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اگر پنجاب اور کے پی کے میں پہلے الیکشن کروا دیے جائیں تو پھر سالہا سال تک ایک نیا سسٹم بن جائے گا کہ پہلے دو صوبوں میں الیکشن ہوں گے پھر باقی ملک میں عام انتخابات ہوں گے جس سے مسائل بھی جنم لیں گئے اور عوام کو بھی مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بے حد ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو ایک میز پر اکٹھے ہونا چاہیے قومی  اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی وقت میں کرانا چاہئے الیکشن کب اور کیسے منعقد ہوں اس کے لئے اتفاق رائے ضروری ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ملک  مشکلات کا شکار ہے  اس کو مشکلات سے نکالنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ توڑپھوڑ ضمنی الیکشن میں حصہ لینا پھر اسمبلیوں میں آ کے حلف نہ لینا ، حلف لینے کے بعد پھر استعفے دے دینا ، بار بار الیکشن کا انعقاد کرانا ملک کو معاشی اور سیاسی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرتا ہے سیاسی رہنما عقل کے ناخن لیں۔  اپنی لڑائی میں ملک کا نقصان نہ کریں قومی اسمبلی کے الیکشن مقررہ مدت میں ہوں  یا کچھ آگے ہوں لیکن جب بھی ہوں اتفاق رائے سے ہوں، اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی وقت میں تمام ملک میں ہونے  چاہیے۔
 اسوقت ملک میں ہوشربا مہنگائی نے ہر سیکڑ کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ امن وامان کی صورتحال بھی بہتر نہیں، چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں  بھی روز بروزاضافہ ہو رہاہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک روز قبل صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات بھی کی تاکہ فنانس بل کو آ رڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جا سکے مگر صدر نے آرڈیننس کی بجائے یہ معاملہ ایوان میں پیش کرنے کا مشورہ دیا  ،جس پر حکمران جماعت نے پارلیمنٹ سے ہی رجوع کیا ہے۔  عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ موجودہ سیاسی رسہ کشی میں سب سے زیادہ نقصان ملک و قوم کا ہو رہا ہے اس لئے حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ملکی مسائل کے حل کیلئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا چاہئے اور قومی مفاد کو ذاتی سیاسی ایجنڈے پر ترجیح دینا چاہیے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن