قومی افق … فیصل ادریس بٹ
وزیراعلیٰ بلوچستان کی تیز و تند پریس کانفرنسں
وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجونے گزشتہ دنوں کافی طویل پریس کانفرنس میں اپنے دل کا خوب غبار نکالا ہے۔ انہوں نے نہایت صراحت سے اپنے اوپر پڑنے والے دباؤ کی بھی وضاحت کی کہ ان کو ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ ڈٹ کر مقابلہ کریں گے مگر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ انہوں نے تلخ لہجے میں کچھ اداروں اور عدلیہ کے حوالے سے بھی اپنی شکایت بتائیں کہ لوگ اور ادارے حکومتی فیصلوں کے خلاف عدلیہ کی طرف چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے حکومتی امور کی انجام دہی میں مشکلات پیش آتی ہیں اور مسائل کا یہ پرنالہ وہیںکا وہیں رہتا ہے۔ لہٰذا اب انہوں نے بھی تہیہ کر لیا ہے کہ جہاں بھی حکم امتناعی ملا اس کے خلاف حکومت سپریم کورٹ میں جائے گی اورکوئی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پیسے دے کر وزیراعلیٰ نہیں بنے انہیں ایوان میں اپنے ساتھیوں اور اتحادیوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے کچھ عناصر چاہتے ہیں میں مستعفی ہو کر ان کا راستہ صاف کردوں مگر ایسا میں کرنے والا نہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی ان تیز و تند باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ صوبے میں کوئی نہ کوئی اندرون خانہ کھچڑی پک رہی ہے ورنہ بلاوجہ کوئی اتنا طویل بیان نہیں دہراتا اور خفیہ دباؤ پر بات نہیں کرتا۔ لگتا ہے اندرون خانہ دال میں کچھ کالا ہے یا پھر پوری کی پوری دال ہی کالی ہے جس پر بلوچستان کے نوجوان وزیراعلیٰ خاصے جُز بُز ہیں۔
سکیورٹی کے لحاظ سیاس حساس صوبے میں سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رکھا جائے تاکہ وہاں کے عوام کو ہر سطح پر ریلیف ملے اور ان کی محرومیوں کا ازالہ ہو۔ ریکوڈیک کی طرف سے 300 ارب روپے کی قسط ملنے کے بعد وزیراعلیٰ کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ سیلاب متاثرین کے لئے 400 ارب روپے درکار ہیں۔ ان کی بات درست سہی مگر جو عالمی اداروں اور وفاق کی طرف سے امداد آئی ہے تو اس کی تقسیم کے بعد بھی صورتحال ابتر کیوں ہے؟ وزیراعلیٰ کو گلہ کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟ کیوں سیلاب متاثرین کی امداد میں کوتاہی برتی گئی ہے کہ وہ آج بھی نوحہ کناں ہیں اور ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں؟ ان باتوں کا بھی سراغ لگانا ہوگا۔ متاثرہ علاقوں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے علاوہ بیوروکریسی سے بھی بات کرنا ہوگی تاکہ عوام کا غصہ ٹھنڈا ہو اور متاثرین کو امداد مل سکے ۔
سب سے بڑھ کر وزیراعلیٰ بلوچستان نے صوبے میں تعلیمی ابتری کا ذکر کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لئے جو اہم بات کی ہے وہ یہ کہ بلوچستان کی تعلیمی انحطاط کو ختم کرنے کے لئے یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل اساتذہ کی بھرتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک صوبے میں پرائمری، ہائی اور کالجز کی سطح پر قابل، محنتی اور باقائدگی سے حاضری دینے والے اساتذہ بھرتی نہیں ہونگے صوبے کی حالت نہیں بدلے گی۔ عبدالقدوس بزنجو نے نہایت دلسوزی کے ساتھ اعتراف کیا ہے کہ اگر لوکل سطح پر اچھے قابل اساتذہ نہیں ملے تو وہ میرٹ پر ملک کے کسی بھی حصے سے ایسے اساتذہ کو صوبے میں کام پر لائیں گے تاکہ تعلیمی انحطاط کا خاتمہ ہو یہاں اچھے اساتذہ ہی بچوں کو تعلیمی میدان میں آگے لا کر مستقبل کے لئے ایک بہتر تعلیم یافتہ نوجوان فراہم کر سکتے ہیں۔ امید ہے وزیراعلیٰ بلوچستان کا یہ فیصلہ تعلیمی میدان میں مثبت تبدیلی لائے گا اور تعلیم دشمن عناصر اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔اس وقت صوبے کی انتظامیہ بھی پُرجوش ہے۔ بیوروکریسی حکومت کے ہر عوام دوست اقدام کو آگے بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہے مگر پچھلے دور حکومت میں انتہائی ذمہ دار اور عوام دوست بیوروکریٹس کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا جس میں سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو پی ایم فواد حسن فواد کو معروف بزنس مین عارف نقوی کی کمپنی کی فروخت میں رکاوٹ بننے پر عناد کا نشانہ بنایا گیا فواد زبان زدِ عام کہتے نظر آرہے ہیں کہ عمران خان نے شہزاد ارباب اور اعظم خان کو میرے خلاف کیس بنانے کے لیے کافی آمادہ کرنے کی کوشیش کی۔ فواد کا کہنا ہے کہ عمران خان یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھے کہ شریفوں کیساتھ خدمات انجام دینے والے بیوروکریٹس ایماندار ہو سکتے ہیں۔ فواد حسن فواد اس بیانیے کی بھینٹ چڑھے ۔وہ انتہائی پروفیشنل غیر متنازعہ اور ایمانداری ایسی کہ ہر پارٹی سربراہ اسکی غیر جانبداری، ایمانداری کا معتقد ہے ۔مگر عمران خان نے اس کو شہباز شریف کو ایماندار اور گڈ گورننس کے ماہر ہونے کا سرٹیفیکیٹ دینے پر گریڈ 22 سے محروم کرنے کی کوشیش کی۔ مگر عبداللہ سنبل اب پھر گریڈ 22 حاصل کرنے کے لیے تمام مراحل کامیابی سے طے کرچکے ہیں۔اب شہباز شریف کو اعلیٰ روایات بروئے کار لاتے ہوئے عبداللہ سنبل کو گریڈ 22 دینا چاہیے۔ ویسے تو سنبل کی ذات شخصیت کے آگے تمام اہم پوسٹینگز کوئی حیثیت نہیں رکھتیں مگر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کم از کم تعیناتی ہو سکتی ہے جس سے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے اعلیٰ ظرف اور خاندانی روایات کو مزید وسعت ملے گی۔ ویسے ان مشکل حالات میں معاشی بحرانوں سے نکالے جانے کا کام عبداللہ سنبل کو سیکرٹری خزانہ لگا کر بھی لیا جا سکتا ہے۔ عبداللہ سنبل فنانس میں گراں قدر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ویسے بھی عبداللہ سنبل وزیراعظم کے اردگرد بیوروکریٹس کی اہم ٹیم کے مداح بھی ہیں اور ساتھی بھی نجی محفلوں میں وہ ڈاکٹر توقیر کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ احد چیمہ کی بے گناہی کے باوجود پابندِ سلاسل ہونے کے خلاف وہ مختلف فورمز پر آواز اُٹھاتے رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
تصاویر:
میاں شہبازشریف
عبدالقدوس بزنجو،
عبداللہ سنبل (چیئرمین پی اینڈ ڈی)
فواد حسن فواد (سابق پرنسپل سیکرٹری وزیراعظم نوازشریف)
ڈاکٹر توقیر (پرنسپل سیکرٹری تو پی ایم)
احد چیمہ (معاون خصوصی وزیراعظم)
……………
سنبل کی سرخی نکالنی ہے ایک ڈیک بھی سنبل کا بنانا ہے