20 فروری: شہدائے لندن کی یادوں کے چراغ



 محاذ آرائی…ایم ڈی طاہر جرال
mdtahirjarral111@gmail.com

 20 فروری 1973 کا دن شہدائے لندن کی بہادری اور جذبہ حب الوطنی کی ایسی مثال ہے جو تاریخ میں بہت کم ملے گی۔ بشارت شہید اور ان کے دو ساتھیوں نے اپنی کم سنی کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا انہوں نے عقل و خرد کو بہت پیچھے دھکیل کر بنگلہ دیش میں 90 ہزار قیدیوں کے اہل خانہ کے کرب دکھ تکلیف اور مایوسی کو ختم کرنے کی امید کی کرن بننے کا عزم مصمم کر لیا اور ان کم سن تین شہزادوں نے اپنے جذبے اور جرآت کی بنیاد پر اپنے قد سے بہت بڑا بلکہ بہت عظیم مشن سنبھالنے کی ایک ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا کے لیے ایک مثال رہے گی شہدائے لندن کی تاریخ سے اہل کشمیر ہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام اور دنیا بھر کے لوگ واقف ہیں کہ ان جوانوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے محرکات ریشہ دوانیوں پر اور قیدیوں کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا ایک ایسا عملی مظاہرہ کیا کہ دنیا حیران رہ گئی جب بشارت اپنے دو کم سن ساتھیوں کے ساتھ بھارت کے لندن میں ہائی کمیشن میں جانے کا فصیلہ کیا ان کی جائز اور معصوم خواہش قیدیوں کی رہائی تھی یہ نوجوان اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے کہ مملکت پاکستان کے ساتھ بھارت نے جو سازش کی ہے اور اس کے ایک بازو مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں جو ناپاک جسارت کی ہے اور 90 ہزار پاکستانی فوجیوں کو اپنی قیدی بنایا ہے اس پر اسے سبق سیکھانا جائے،لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کی عمارت میں داخل ہونے کی تمام تر منصوبہ بندی کی ان نوجوانوں نے کسی کو خبر نہیں ہونے دی، ان کے جوان اور گرم خون میں شامل جذبہ ایمانی اور حب الوطنی نے انہیں ہر طرح کے خطرات سے آزاد کر دیا ؛ حضرت اقبال یاد آگئے
 بے خطر گود پڑا آتش عشق میں نمرود
عقل ہے محو ےماشائے لب بام ابھی
شہیدوں نے بھی بے خطر بھارتی ہائی کمیشن میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا، تمام تر سیکورٹی فورسز کی پابندیوں کو روند کر یہ تین جوان بھارتی ہائی کمیشن لندن میں داخل ہوئے ان کے پاس کھلونا نما ہتھیار تھے سیکورٹی اسٹاف کو قابو کیا اور ٹیلی فون کے تمام کنکشن منقطع کر دیے، اپنے مطالبات بتائے کہ 90ہزار پاکستان کے فوجی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور بھارت کشمیر سے اپنی فوجیں نکال کر کشمیریوں کو حق خودارادیت دے، یہ منظر بالائی منزل پر ایک سفارت کار کی بیوی نے دیکھ کر برطانوی پولیس کو اطلاع دے دی، برطانوی پولیس نے ان تین کشمیری مجاہدوں سے نہ مذاکرات کئے اور نہ ہی ان کے مطالبات پر توجہ دی نہ ہی اس واقعہ کے اسباب جاننے کی کوشش کی اور اندھا دھند فائرنگ کر کے پہلے بشارت کو پھر دوسرے ساتھی حنیف کو شہد کیا جبکہ تیسرا معصوم یہ منظر دیکھنے کی تاب نہ لا سکا اور وہ بے ہوش ہو گیا، بھارت کے ہائی کمیشن میں جانے کے اصل محرکات معلوم کیے جانا ضروری تھے لیکن انہیں جاننے کی کسی نے زحمت نہیں کی، یوں مادر وطن کے یہ نوجوان درجہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے تاریخ بتاتی ہے کہ شہدائے لندن کی اس قربانی اور وطن کی حرمت پر مرمٹنے کے واقعہ کی اطلاع جب میرپور پہنچی تو یہاں کہرام مچ گیا۔ اہل میرپور سوگوار ہو کر سراپا احتجاج بن گئے اور یہاں پر مختلف سیاسی جماعتوں ، طلبہ تنظیموں اور عمائدین شہر کے مشترکہ اجلاس میں ایک نمائندہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے اہم ممبرا ن میں سے غازی ملت، غازی الہیٰ بخش ،چوہدری شریف طارق ایڈووکیٹ ،کرنل محمد یوسف ،راجہ محمد اسلم خان،غازی عبدالرحمن ،چوہدری لال خان ،چوہدری فرمان علی اور ڈاکٹر یعقوب ظفر سمیت داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں بیس ممتاز زعما پر مشتمل اس کمیٹی نے اجتماعی فورم سے حکومت پاکستان و برطانیہ تک اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور مطالبہ کیاکہ حنیف شہید و بشارت شہید کی میتیں پورے قومی اعزاز سے وطن واپس لائی جائیں اور انہی قائدین کمیٹی کی کوششوں سے شہدائے لندن حنیف اور بشارت کی میتیں یکم مارچ 1973 کو وطن لائی گئیں تو تمام کشمیر سے تمام قافلوں کا رخ راولپنڈی ائیر پورٹ کی جانب تھا میرپور سٹیڈیم میں شہدا کی جنازہ حضرت مفتی اعظم میرپور مفتی عبدالحکیم نے پڑھائی ۔ شرکاء کی تعداد تیس ہزار سے متجاوز تھی نماز جنازہ میں وفاقی حکومت پاکستان کی نمائندگی وزرائ مولانا کوثر نیازی اور خورشید حسن میر نے کی۔ صدر سردار عبدالقیوم خان، سپیکر اسمبلی شیخ منظر مسعود ، چوہدری نور حسین ، غازی الہی بخش ، عبدالمجید ملک، عبدالخالق انصاری اور ا?زاد کشمیر کے دیگر رہنماﺅں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بشارت شہیدکی میت ان کے آبائی گاوں روانہ کی گئی اور انہیں پلاک میں سپرد خاک کیا گیا جبکہ حنیف شہید کے جسد خاکی کو میرپور میں سپرد خاک کیا گیا،ان شہدا کی قربانیوں کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ہر سال 20 فروری کو شہدائے لندن سوسائٹی کے زیر اہتمام یہ دن قومی جوش و جذبے سے منایا جاتا ھے آزاد کشمیر حکومت کی نمائندگی بھی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کی جاتی ہے آزاد کشمیر کے معروف قلم کار دانشور اور سوسائٹی کے روح رواں کے ڈی چوہدری گزشتہ 20 سال سے شہدائے لندن کی یاد کو تر و تازہ رکھنے کے لئے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں آج کے اس دور پرفتن میں یہ مشکل کام ہے لیکن شہدائے لندن کی قربانی بے مثل اور لازوال یے انہوں نے وطن کے نام پر جانوں کے نذرانے پیش کر کے پوری قوم کے سر فخر سے بلند کر دیے۔مقبوضہ کشمیر میں شہدا کی قربانیوں کا یہ تسلسل ہے دعا ہے کہ اللہ تعالی وطن کے نام پر قوم کے نام پر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بشارت شہید اور حنیف شہید کے درجات بلند فرمائے آمین 

ای پیپر دی نیشن