الیکشن کے بعد ”پی ڈی ایم2“ لمحہ موجود کا پاپولر ووٹ لینے والے بھی فائدہ اُٹھانے کے بعد ”آزاد“ نہیں رہیں گے ۔ مطبوعہ کالم ۔ ایک حصہ ہی تمام اکائیوں کو متحد رکھ سکے گا ”26جنوری 2024“ ۔طبع شدہ نوائے وقت ۔قارئین اِسی کالم میں کلیدی عہدوں پر ممکنہ امیدوار اشخاص کا بھی تذکرہ ہے ۔ مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب۔ شہباز شریف وزیر اعظم ۔ آصف زرداری صدر مملکت۔وہاں سیاسی شور کو بڑھاتی لمحہ موجود کی تصویر میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بہت مشکل ہے کہ مدت پوری ہو حتیٰ کہ 2-3 سال بھی بہت لمبی مدت ہے شاید؟؟ پاکستانی سیاست کے نرالے ہتھکنڈوں ۔ چال بازیوں ۔ عوام دشمن رویوں باعث قومی منظر نامہ ہمیشہ ہی ملک کے لیے ہزیمت۔ دشواریوں کا باعث بنتا رہا ہے ۔ ”9جنوری 2006“ کو مطبوعہ کالم میں اسمبلیوں کی مدت ”4سال“ کرنے کی تجویز دی تھی۔ یہ پہلی تجویز تھی جو نوائے وقت میں شائع ہوئی۔ بعد ازاں ”اسمبلیوں کی مدت 4سال کر دی جائیں “کے عنوان سے کالم متعدد مرتبہ نوائے وقت سمیت مختلف اخبارات کا حصہ بنے ۔ حقیقت یہی ہے کہ جب ”سیاست“ نے کام ہی نہیں کرنا تو پھر ایسے بھاری بھر کم ملبہ کے بوجھ تلے قوم کو دبائے رکھنے کا کیا فائدہ ؟؟ اِس تجویز پر مختلف ادوار میں باقاعدہ اعلانیہ غو رہوتا رہا اِس مرتبہ پہلی مرتبہ ”پی ٹی آئی“ نے اِس کو اپنے منشور کا حصہ بنا دیا ہے۔
”8فروری“ کو میرا پاکستان جیت گیا ۔ فرسودہ دعویٰ قوم نے مسترد کر دیا کہ تبدیلی آئی نہیں آچکی ہے ۔ ”8فروری“ کو واقعی تبدیلی آگئی۔ تبدیلی اب آئی ہے اور میرا وطن لایا ہے۔ ”بلاول “ کو لاہور سے انتخاب لڑنے کا مشورہ جس نے بھی دیا نہایت غلط تھا ۔ وہ غلط مشورے کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ ”ہارس ٹریڈنگ “ کبھی بھی نہیں ہو سکتی اگر ”سیاست“ طے کر لے کہ نہ بِکنا ہے نہ خریدنا ہے ۔ کوئی 3سال رہا یا 35سال یا 10سال (مدت کتنی بھی لکھ لیں) ملک کو کتنا فائدہ ہوا ؟؟ عوام کو کتنا ریلیف ملا ؟ فیصلہ سازی کے لیے عوام ایک صفحہ پر ہیں ایسا منظر پہلی مرتبہ دیکھا ہے اِس فیصلہ کو ”Dead End“ تک لیجانے کی کوشش نہ کی جائے تو بہتر ہوگا ۔مشورہ ہے کہ پچھلے سالوں کے دھبوں کو دوبارہ چہروں پر نہ تحریر کریں ملک۔ اداروں کی سلامتی اولین ترجیح ہونا لازمی ہے ۔حکومت سازی میں فوج کا کردار اب پس پردہ نہیں بلکہ برملا ادا ہوگا اور مستقبل میں بھی کوئی حکومت فوج کی آشیر باد کے بغیر چلتی نظر نہیں آتی۔اور قومی اسمبلی روپڑی ”15دسمبر 2003 “کی یہ تحریر ہے آنے والے حالات کُھلی کتاب مانند میرے تجزیہ کو سچ ثابت کر چکے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ فوج ہمارا ہی حصہ ہے واحد ادارہ ہے جو اُن علاقوں میں جانگسل فرائض سر انجام دے رہا ہے جہاں کبھی ذی نفس کو چھوٹا سا پرندہ بھی شاید نظر نہ آئے۔ شاہراتی رابطے ۔ سکولز۔ کالجز کیا کچھ نہیں کیا فوج نے۔ تو فائدہ کی نظر سے ہی ہم اِس کی واہ واہ کرتے ہیں اور مفاد پورا نہ ہونے پر ہم دُشنام طرازی پر اُتر آتے ہیں۔ حکومت میں ہوں تو دیواروں کو توڑتی بم کی آوازیں بھی سرگوشی مانند معلوم نہیں ہوتیں ۔دروبام ساکت دکھائی دیتے ہیں جبکہ اپوزیشن میں ہوں تو کان میں ہوئی سرگوشی بھی چیخ نما سنائی دیتی ہے۔ سیاستدانوں کو الزامات لگانے سے پہلے اپنے ماضی ۔حال کو ضرور کہنگلنا چاہیے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ ضرور جائزہ لیں کہ انہوںنے وقتی مفادات (وہ بھی ذاتی)کے لئے کب اور کس وقت خود کو پیش کیا اور دوسروں کو پیچھے کیا ۔ غلطیوں کے بوجھ کا سب سے بڑا حصہ ”اہل سیاست“ کے کندھوں پر نظر آئے گا ۔
چند تجزیے جو پورے ہو گئے اور کچھ یادگار تحاریر جو منظور اور قبولیت کا درجہ پا کر تاریخ کا حصہ بن گئیں ۔ مطبوعہ کالم ”ماضی ۔ ماضی ”12اپریل 2019“ میں ٹال پلازے ختم کر کے روڈ ٹیکس ۔ ریڑھی ۔ ہتھ گاڑی ۔ ٹانگے پر ”200سے500روپے رکشہ پر 1000 روپے“سالانہ ٹیکس ۔ پورے ملک کی دوکانوں پر رقبہ کے مطابق فکس مناسب ٹیکس تمام سائز کی مارکیٹ پر یکساں ٹیکس کی تجاویز دیں اِس کے علاوہ ایک ہی قسم کے کاروبار پر فکس ٹیکس کا مشورہ دیا۔ عمران خان کے دور میں بارہا مشورہ ہوتا رہا ۔عمل درآمد موجودہ نگران حکومت میں ہونے جا رہا ہے دوکانوں کے سائز کے مطابق فکس ٹیکس سمری کی منظوری کا پچھلے دنوں چرچا رہا۔
”یکم نومبر 2019“کے کالم میں ”ایف بی آر“ کو ختم کرنے کی تجویز دی ۔ نگران حکومت اصلاحا ت کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ اِس ادارہ میں اصلاحات بہت ضروری ہیں حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد اِس پر عمل درآمد کروا لے ۔”مارشل لا“ نہیں لگے اور الیکشن بھی قومی ہونگے۔ مطبوعہ کالم نوائے وقت ”28اپریل 2023“۔ تب مایوسی پھیلاتی افواہوں کی مارکیٹ گرم تھی۔ ماحول بہت انتشار والا تھا ۔ مایوسی کا غلبہ تھا عوام میں نا اُمیدی پیدا کرتی افواہوں کے رد کے لیے لکھا تھا۔ اب فیصلہ بیلٹ باکس کریں گے جن کا اختیار عوام اپنے ہاتھوں میں بتدریج لینے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔ منظر نامہ تب پر سکون ہوگا جب اگلی فلم کے پروڈیوسر عوام ہونگے اور ہیرو بھی عوام ہی ہونگے ۔ عوامی تائید سے محروم طبقات۔ اشرافیہ اور نتائج کبھی بھی ملکی تاریخ کو پر سکون نہیں رکھ سکیں گے ۔ مطبوعہ کالم” 18نومبر 2022“برداشت کا عالمی دن ۔” 20جنوری 2023 “کا کالم پڑھ لیں ۔ تجزیہ تھا کہ کِسی کے بھی آنے سے ووٹ بینک میں فرق نہیں پڑنے والا ۔ حالیہ الیکشن کے نتائج ثبوت ہیں ۔بڑی بڑی سیاسی تبدیلیوں اور واپسی کا آپشن ”20اکتوبر 2023 “میں کیا۔ ”3جون2022 “کو ”میثاق پاکستان کالم“ میں نیک نام لوگوں پرمشتمل اعلیٰ سطحی کمیشن کی تجویز دی ۔قارئین پوری تفصیل شائع شدہ کالم میں پڑھ سکتے ہیں ۔ ”پی ٹی آئی“ نے اِس کو اِس مرتبہ اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے۔ ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں اگر قومی اکابرین عوام کی آواز بن کر اکٹھے بیٹھ جائیں۔ اب بھی کِسی نے اگر سبق نہیں پڑھا تو پھر وہ وقت جلد آجاتا ہے کہ سبق سیکھنا پڑتا ہے۔