معزز قارئین
اگرچہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان کئی مسائل میں پھنسے رہتے ہیں لیکن اِس کے باوجود ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق ربّ ِعظیم اور س کے محبوب / محبوب ترین اور برگزیدہ بندوں کو یاد کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ شاید ن کی دعاﺅں سے ربّ لعالمین دنیا میں پھر سے امن اور سکون کا ماحول پیدا کردیں۔ آج 5 شعبان لمعظم 1445ہجری (16 فروری 2024ئ) کو فرزند ِ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وَسلم سیّد لشہداءحضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت سجّاد ،امام زین لعابدین کا مولودِ مسعود منایا جا رہا ہے۔
مختلف تواریخ کے مطابق ”امام لانبیاءصلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم نے فرمایا تھا کہ ”میرے فرزند حسینؓ ابن علیؓ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا، جس کا نام علیؓ ہوگا اور وہ قیامت کے دِن سیّد زین لعابدینؓ کے لقب سے پکارا جائے گا“۔
امام زین لعابدین 5 شعبان لمعظم 38 ہجری کو مدینہ منّورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ ملک فارس (ایران) کے آخری بادشاہ یزد جرد (یزدگرد)کی بیٹی تھیں، جن کا نام شہر بانو تھا۔ 10 محرم 61 ہجری کو سانحہ کربلا ہوا۔ مَیں نے آئمہ اطہار پر کئی منقبتیں لکھیں۔ امام عالی مقام حضرت حسینؓ کی منقبت کے 6شعر پیش خدمت ہیں....
صاحب کردار، فخر مِلّت، بَیضا حسینؓ!
کار گاہِ کن فکاں میں، منفرد، یکتا حسینؓ!
سیّد لشہدا حسینؓ
....O....
ن کا نصب لعین، تخت و تاج تو ہرگز نہ تھا!
رَزم گاہ میں، دین کی خاطر تھے ، صف آرا حسینؓ!
سیّد لشہدا حسینؓ
....O....
پانی پانی ہو رہا تھا،دِل میں، دریائے فرات!
کاش آ پہنچیں، کسی صورت، لب ِدریا حسینؓ!
سیّد لشہدا حسینؓ
....O....
حضرت مولودکعبہ کا قبیلہ کٹ گیا!
اِک طرف طاغوت سارے، اِک طرف تنہا حسینؓ!
سیّد لشہدا حسینؓ
....O....
مقتدر تو جیت کر بھی ہوگیا ذِلّت مآب!
حالانکہ تھے، کربلا میں، فاتح اَعدا، حسینؓ!
سیّد لشہدا حسینؓ
....O....
منتظر تھے حورو غِلماں ، اَنبیاءاور اَولیائ!
جب درِ فردوس پہنچے ، وارث کعبہ حسینؓ!
سیّد لشہدا حسینؓ
....O....
معزز قارئین ! سانحہ کربلا کے بعدحضرت امام حسینؓ کی ہمشیرہ محترمہ حضرت زینبؓ نے شہداءکی بیواﺅں اور یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے لِیا تھا، ن میں حضرت امام زین لعابدین بھی تھے۔کوفہ میں حضرت زینبؓ کی تقریریں، س کے بعد شام کا سفر، شام کے بازار اور یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خطبے اور برجستہ جوابات کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ۔
”ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا حضرت علی مرتضیٰؓ خطبہ دے رہے ہیں“۔ مَیں نے 2007ءمیں ”علیؓ کی بیٹی، سلام تم پر“ کے عنوان سے حضرت بی بی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت لکھی جس کے پانچ بند پیش خدمت ہیں....
خدا کی رحمت، مَدام، تم پر!
رِدائے خَیرالاَنام، تم پر!
بتولؓ کا نورِ تام، تم پر!
علیؓ کی بیٹی، سلام تم پر!
....O....
قبیلہءپَنج تنؓ کی عظمت!
اے نیک خو! بِنتِ بابِ حِکمت!
ثناگری، صبح و شام، تم پر!
علیؓ کی بیٹی، سلام تم پر!
....O....
ملوکِیت جیسے غم کدہ، تھی!
یزِیدیت زلزلہ زدہ، تھی!
ہے ختم، زورِ کلام تم پر!
علیؓ کی بیٹی، سلام تم پر!
.... O ....
وفا کے پَیکر ، شمار ہوتے!
وہاں ، جو ہوتے ، نِثار ہوتے!
نبی کے سارے ، غلام تم پر!
علیؓ کی بیٹی ،سلام تم پر!
.... O ....
اثر جو پایا، اشارہ ربّ!
تو رکھّا ، نانا نے، نام زَینب!
ہے خوب سجتا ہے، نام تم پر!
علیؓ کی بیٹی، سلام تم پر!
....O....
معزز قارئین! سانحہ کربلا کے وقت امام سجّاد زین لعابدین کی عمر تقریباً 23 سال تھی۔ حضرتِ سجّاد (امام زین لعابدین) کا دورِ امامت یزید بن معاویہ کے دَور میں چار سال رہا، 40 دِن تین ماہ مروان بن حکم 12 سال عبدلملک بن مروان اور 10 سال ولید بن عبدلملک کے دَور میں رہا۔ یہ بڑی آزمائش اور ابتلا کا دَور تھا۔ مولا علی مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے مولائی کہلانے والے علاّمہ اقبال نے اپنی فارسی نظم ”فلک ِزہرہ“ میں امام زین لعابدین کی عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی کیفیت یوں بیان کی تھی کہ....
اند رو نم جنگ، بے خَیل و سِپہ!
بیندآں کوہم چومن داردنِگہ!
.... O ....
بے خبر مرداں زرزمِ کفر و دِین!
جان ِ من تنہا، چو زین لعابدین!
....O ....
ازمقام و راہ کس، آگاہ نِیست!
جزنوائے من چراغِ راہ نِیست!
....O....
یعنی۔ 1 ”میرے اندر لشکر و فوج کے بغیر جنگ جاری رہتی ہے“۔ سے وہی دیکھ سکتا ہے جو میری طرح صاحبِ نگاہ ہو۔ -2 لوگ کفر اور دین کی اِس جنگ سے بے خبر ہیں، میری جان حضرت زین لعابدین کی مانند تنہا (اِسے دیکھ رہی) ہے۔ -3 اِس دَور میں کوئی شخص راستے اور منزل سے آگاہ نہیں، سوائے میری آواز کے اور کوئی راستے کا چراغ نہیں“۔
معزز قارئین! کئی سال پہلے حضرت سجّاد امام زین لعابدین کی لکھی ہوئی میری منقبت پیش خدمت ہے....
شاہانِ اہل بَیت کے، شَہزاد، آگئے!
مَسجود بھی ہے خَنداں، کہ سجّاد، آگئے!
....O....
پِھر، آفتابِ رشد و ہَدایَت، ہوا طلوع!
اِنسان بن کے، اَمرِ خداداد، آگئے!
....O....
خوش ہو کے، شہر بانو سے، کہنے لگے، حسین!
لو! پاسبانِ عَظمتِ اَجداد، آگئے!
....O....
پا کر خبر شِتاب، ہوا قدسِیوں میں، شور!
”چَشمہ خیر، صاحبِ اِرشاد، آگئے!
....O....
مِینار نور، مَشعل نہج لبلاغہ ہیں!
اہلِ صَفَا کے مرشد و ستاد آگئے!
....O....
وہ آگئے، مفسّرِ معراجِ مصطفی!
اَوصافِ ذوالجلال کے حَمّاد، آگئے!
....O....
یاد آئے جب، نبِیرہ مَولا علی، اثر!
سب مومنِین کرب و بَلا، یاد آگئے!
....O....