ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی نہ رہے،رہے نام اللہ کا۔ معروف ماہراقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور میں شعبہ اردو کے سربراہ رہے لیکن ان کا یہ تعارف کافی نہیں۔ ان کی علمی وادبی کاوشوں سے میری شناسائی تو ایک مدت سے تھی لیکن باقاعدہ تعلق بہت بعدمیں قائم ہوا۔یہ آج سے کوئی پندرہ بیس برس اُدھر کاواقعہ ہے،مجھے امریکہ سے پنجاب یونیورسٹی کے ایک سابق کتاب دارعبدالوہاب خان سلیم صاحب کا فون آیا۔وہ ایک رسالے میں شائع ہونے والے میرے مضمون کے بارے میں کچھ استفسار کرنا چاہتے تھے۔میں نے حیران ہوکر پوچھا ،:آپ تک میرا یہ مضمون کیسے پہنچا؟۔انھوں نے بتایا ،©”مجھے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب نے اس کی عکسی نقل پوسٹ کی تھی۔حج کے سفرناموں میں ہمارے لیے دلچسپی کا خاصا موادموجود ہے“۔ان دنوں بہت کم لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرتے تھے۔علم وادب کے دیوانے زیادہ ترخط لکھا کرتے ہیں۔نامانوس ٹکٹوں والے لفافوں میں کاغذاورقلم کے ذریعے دل کی باتیں کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔اس کے بعدان دونوں بزرگوںعبدالوہاب خان سلیم اور رفیع الدین ہاشمی (اب دونوں مرحومین)سے میرے تعلق کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ایسے قیمتی لوگ اب آہستہ آہستہ معدوم ہوتے جارہے ہیں ،ہاں کتابوں میں ان کا تذکرہ ضرور ملتا ہے۔بلاشبہ ایسی شخصیات سے تعلق پرفخر کیا جاسکتا ہے۔ مختار صدیقی کا شعر ہے:
نکتہ وروں نے ہم کوسجھایا خاص رہو اورعام بنو
بستی بستی صحبت رکھو دنیامیں گم نام رہو
ہاشمی صاحب اردو زبان وادب کے عظیم اساتذہ کی اس روایت سے تعلق رکھتے تھے جس میں مولوی محمدشفیع ،حافظ محمودشیرانی ڈاکٹرسیدعبداللہ،ڈاکٹر عبادت بریلوی،ڈاکٹر وزیرالحسن عابدی اور پروفیسر وقار عظیم جیسے لوگ شامل ہیں۔ان کی علمی وادبی خدمات کی تفصیل بیان کرنے کا محل نہیں۔اس مختصر سے کالم میں تو بس ایک ہلکی سی چھب ہی دکھائی جاسکتی ہے۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے میری چندملاقاتیں ہیں۔ان کے معمولات ِزندگی دیکھ کر ان کی عظمت کا اندازہ ہوتا تھا۔ استاذی پروفیسر ڈاکٹرعبدالعزیز ساحرنے ایک ملاقات میں بتایا کہ جن دنوں وہ مری کے مرحوم گورنمنٹ کالج(اب کوہسار یونیورسٹی)میں تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے ۔ ہاشمی مرحوم چندروز کے لیے ان کے ہاں مقیم رہے ۔انھوں نے مشاہدہ کیا کہ ہاشمی صاحب صبح سویرے اٹھتے ،نمازپڑھتے اورسیر کونکل جاتے تھے۔ان کے پاس جیبی سائز کا قرآن پاک کاایک نسخہ تھا۔وہ سیربھی کرتے جاتے اور منزل بھی پڑھتے جاتے تھے۔بہت سے معاملات میں وہ اصول وضوابط کے پابند تھے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بہت مصروف زندگی گزاری،درس وتدریس کے علاوہ برصغیر کے مختلف شہروں سے وفود ان سے ملنے کے لیے آتے۔عائلی زندگی معاملات بھی خوش اسلوبی سے انجام پاتے۔ پنی انسٹھ سالہ زندگی میں انھوں نے متعدد کتابیں لکھیں، شاہ صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے اتنی مصروفیات کے باوجود تصنیف وتالیف کا بہت سا کام کیسے کرلیا؟۔ انھوں نے فرمایا کہ،” عزیزمکرم! میں وقت کی لمبائی کے ساتھ ساتھ اس کی گہرائی کو بھی استعمال میں لاتا ہوں“۔ ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی مرحوم سفروحضرمیں اپنے معمولات کو ایک خاص ترتیب سے انجام دیتے تھے ،ان کے ہرعمل میں ایک توازن دکھائی دیتا تھا۔ وہ بہت سی کتابوں کے مصنف تھے،یہاں محض ان کے اقبال شناسی کے سرمائے کا تذکرہ کرنا مقصود ہے۔ اس دھان پان سے آدمی نے اس موضوع پر اتنی کتابیں لکھیں،کہ بقول شخصے اگر” ان کتابوںکاوزن کیا جائے تو ہاشمی صاحب کے اپنے وزن سے کچھ زیادہ ہی ہوگا“۔ ہمارے دوست ذوالکفل بخاری مرحوم اہل علم کی زیارت کے شائق تھے،ایک دفعہ سید ابوالحسن علی ندوی کی زیارت کے لیے بطورخاص کراچی کا سفرکیا۔ ہاشمی صاحب کا معاملہ اس سے متضاد تھا۔ وہ جب بھی میرے شہر سے گزرتے، فون کرکے اطلاع دیتے، مختصر قیام میں زیارت کا موقع مل جاتا، واپسی پر بھی ان کا یہی معمول ہوتا تھا۔ جب بھی کسی کانفرنس میں ملاقات ہوتی تواپنے دولت کدے پر تشریف لانے کا حکم دیتے، ملاقات میں تاخیر ہونے کا شکوہ بھی کرتے ۔ہم نے اپنے کالج کے شعبہ اردو کے زیرتحت ”اقبال اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“کے عنوان سے ایک کانفرنس کروائی ، مہمان کے طور پر بطور خاص انھیں مدعو کیا۔ کانفرنس کے بعد وارڈن ہاو¿س میں ظہرانہ تھا۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ وہی گھر ہے جہاں علامہ اصغرعلی روحی کے صاحب زادے اورعربی زبان وادب کے استاد ڈاکٹرصوفی ضیا ءالحق بھی مقیم رہے۔اسی وقت ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو فون ملایا اور بڑے فخرسے بتا یا کہ” اس وقت ہم آپ کے مہربان استاد کی روح کی خوشبو کو محسوس کررہے ہیں“۔یادرہے کہ ڈاکٹر خورشیدرضوی کو اپنے ان استاد سے بے پناہ محبت اورعقیدت ہے۔ ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی کو مختلف غیر ممالک میں جانے کا موقع بھی ملا۔انھوں نے اپنے ان اسفار کی ڈائری بھی لکھی ہے۔ان کے سفرناموں میں ایک ایسے انسان سے ملاقات ہوتی ہے جو اصل معنوں میں ”سیروافی الارض “کے ارشادعالیہ کے تابع ہے۔ایک جگہ انھوں نے اندلس(اسپین) کے سفر نامے میں ضمیمے کے طور پر فرانس کے ایک یادگار سفر کی روداد بھی شامل کی ہے۔ان دنوں ےورپ شدید سردی کی لپیٹ میں تھا۔ ڈاکٹر رحمت اللہ کی ر ہنما ئی میں ہاشمی صاحب نے پیرس کے گلی کوچوں میں شانزالیزے اور فتح محراب،آئفل ٹاور،نپولین کا مقبرہ اور فوجی عجائب گھر وغیرہ کا کی سیرکا خوب تذکرہ کیا ہے ۔اس کے باوجو د فرانس میں ان کا خاص مقصد عالمی شہرے یافتہ مبلغ اسلام ڈاکٹر حمید اللہ (مرحوم)سے ملاقات کرنا تھا۔انھوںنے اس تفصیلی ملاقات کو باقاعدہ مکالماتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اخوان المسلمین کے امیرسیدحسن البناءسے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کتابیں تصنیف نہیں کیں؟۔ انھوں نے جواب میں کہا، ”انااصنف الرجال(میں انسان تصنیف کرتا ہوں)“۔ ہاشمی صاحب نے کتابوں کے ساتھ ساتھ انسان بھی تصنیف کیے ۔ان کی یہ کتابیں شاگردوں کی صورت میں موجود ہیں۔
ان نیک نام شاگردوں میں ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر ظفرحسین ظفر، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ڈاکٹر وحیدالرحمان خان، ڈاکٹر زاہدمنیرعامر، ڈاکٹر خالد ندیم ڈاکٹرصابرکلوروی،ڈاکٹر عطش درانی، ڈاکٹر جاویداصغر، ڈاکٹر ایوب منیر،ڈاکٹر محمدکامران اور بہت سے دوسرے لوگ شامل ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ہاشمی صاحب کے دوست عبدالوہاب خان سلیم زندہ ہوتے تو ان کا وفات پر قطعہ تاریخ ضرور لکھتے ۔میں مبتدی ہوں لیکن ان کے حوالے سے اپنی ایک نظم کے دوشعر قارئین کی خدمت میں پیش کرتاہوں:
اے عزیز ِ خاطرِ صاحب دلاں
اے ضیائے کعبہ ¿ روحانیاں
پیرِ تو اقبال گفت اے ارجمند!
”پاک مرداں از مقامات ِ بلند“
٭....٭....٭