ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹی سمگلر نکلا۔ 3 کلو ہیروین برآمد۔
خدا جانے یہ سائیڈ بزنس کو پولیس والوں نے کیوں سمگلنگ کا نام دیدیا ہے۔ اب پنجاب فوڈ اتھارٹی کے 18 گریڈ کے اس افسر کا شاید تنخواہ اور اوپر کی آمدنی سے پیٹ نہیں بھرتا ہو گا اس لیے اس نے اگر ہیروین فروشی کا سائیڈ بزنس شروع کیا ہے تو عجب کیا ہے، ہمارے کافی بڑے اور بااثر لوگ سمگلنگ کے دھندے سے کروڑوں روپے کماتے ہیں ، کوئی اسلحہ ، کوئی منشیات، کوئی الیکٹرانکس اور نجانے کیا کیا سمگل کرتے ہیں۔ اب اس ڈپٹی ڈائریکٹر کو ہی دیکھ لیں ہیروین علاقہ غیر سے منگوا کر یا لا کر پنجاب بھر میں سپلائی اور اپنے خریداروں کو فروخت کر کے نجانے کب سے کتنا کما رہا ہو گا۔ یہ تو اب پتہ چلے گا کہ سرکاری ملازمت کی آڑ میں یہ کب سے یہ دھندا کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ اور کون کون اس منافع بخش کاروبار میں شامل ہیں۔ خدارا ان کے شریفانہ چہرے بھی بے نقاب کر دیں تو مزہ آ جائے۔ بڑے بڑے حضرات بے نقاب ہو کر منہ چھپاتے پھریں گے۔ پیسوں کے لالچ میں ان منشیات فروشوں نے ایک پوری نسل کو تباہ کر کے معذور و اپاہج بنا دیا ہے۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر یہ نوجوان بوڑھے،مرد و خواتین کچرے کے ڈھیروں یا نالوں کے آس پاس نشہ کر کے دھت بے ہوش پڑے رہتے ہیں۔ امیر غریب اچھے برے سب لوگ اس میں شامل ہیں۔ اب تو تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں۔ موت کے ان سوداگروں کو رعایت دینے سے بہتر ہے انہیں فی الفور سزائے موت دے کر نشان عبرت بنایا جائے ورنہ جس تیزی سے بیہوش ہیرونچی سڑکوں پر پڑے نظر آتے ہیں ڈر ہے پورا ملک ہی کہیں مدہوش یا بے ہوش نہ نظر آنے لگے۔
٭٭٭٭٭
ریڈیو کے عالمی دن پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے انگریزی خبرنامہ پڑھا۔
یہ بڑی اچھی بات ہے کہ کسی وزیر کو ریڈیو کا بھی خیال آیا ورنہ اب تو پی ٹی وی بھی مال متروکہ بنتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ریڈیو اور ٹی وی کا دور دورہ تھا۔ لوگ سارا دن ریڈیو سنتے نظر آتے تھے۔ کیا شہر کیا دیہات سب کا پسندیدہ کام ریڈیو پروگرام سننا تھا۔ ریڈیو بھی عوامی جذبات اور امنگوں کا ترجمان تھا۔ پھر ضیاء الحق کے دور میں موسیقی یعنی گانوں کے پروگرام ٹھپ ہوئے تو عوام متنفر ہو گئے۔ اس دوران پی ٹی وی اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ اس کے ڈرامے، تفریحی پروگرام چونکہ دیکھے بھی جاتے تھے اس لیے اسے مقبولیت حاصل ہوئی۔ مگر ہمارے معاشرے میں جو انقلاب اور تبدیلی ریڈیو پاکستان لایا اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ علمی، ادبی ، اصلاحی و مذہبی پروگراموں کی بدولت ناخواندہ طبقے نے بھی بہت علم پایا اور شعور حاصل کیا۔ یہی نہیں سیاسی و سماجی تربیت اور بدلائو میں بھی اسی ریڈیو کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ یہ سب سستا ذریعہ تھا ذرائع ابلاغ کا۔ ایک ریڈیو درجنوں افراد سنتے تھے وہ بھی مفت میں۔ اب موجودہ وزیر اطلاعات و نشریات کا تعلق چونکہ خود بھی ذرائع ابلاغ سے ہے اس لیے انہوں نے بھولے بسرے ریڈیو کو یاد کر کے اچھا کیا۔ انہوں نے گزشتہ دنوں ریڈیو کے عالمی دن کے موقع پر ریڈیو پاکستان سے انگریزی میں خبریں پڑھیں۔ یوں ایک اچھے براڈ کاسٹر ہونے کا ثبوت بھی دیا جس سے ریڈیو کے شائقین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ورنہ ایسے کہاں ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭
قصور کے نواحی گائوں میں نامعلوم افراد نے خزانے کی تلاش میں مزار کھود ڈالا۔
ابھی تک بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بہت سے مقامات پر ہجرت کر کے ہندوستان جانے والے امیر کبیر افراد نے اپنا سونا چاندی مٹکوں میں بھر کر زمین میں دبا دیا تھا اور اس پر مٹی کی ڈھیری نشانی کے طور پر بنا دی تھی بعد میں ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں نے ان ڈھیریوں کو کسی بزرگ کی قبر سمجھ کر مزار کی شکل دیدی۔ یوں وہاں نذر نیاز اور چڑھاوے چڑھنا شروع ہو گئے۔ قصور کے سرحدی گائوں کے مکینوں کا کہنا ہے گزشتہ شب نامعلوم افراد نے ایک ایسے مزار میں قبر کھود ڈالی اور وہاں دفن خزانہ لوٹ کر لے گئے۔ اب معلوم نہیں گائوں والوں کو قبر کھودنے کا دکھ ہے یا خزانہ لوٹے جانے کا۔جس سے وہ محروم رہ گئے۔ دکھ تو ایسے مزاروں کے مجاوروں کو زیادہ ہو گا کیونکہ یہ مزار تو خود ان کے لیے خزانے سے کم نہیں ہوتے وہ یہاں بیٹھے بٹھائے ہر ماہ لاکھوں کماتے ہیں۔ سادہ لوح افراد یہاں جو نذرانہ دیتے ہیں وہ سیدھا ان کی جیبوں میں جاتا ہے۔ مال بھی مفت ملتا ہے اور عزت بھی بنی رہتی ہے۔ ورنہ ان مجاوروں میں شاید ہی کوئی دینی یا دنیاوی علم رکھتا ہو۔ورنہ اکثر مست ملنگ یعنی دین ودنیا سے بے خبر ملیں گے۔ اس واقعہ سے کچھ عرصہ پہلے بھی ایک ایسی ہی خبر شائع ہوئی تھی جس میں نامعلوم افراد راتوں رات کسی پیر کی قبر کھود کر اسکی نعش نکال کر لے گئے تھے۔ شاید اب وہ پیر کسی نئے مقبرے یعنی آرام گاہ میں سو رہے ہوں گے اور ان کے نئے مجاور نذرانے وصول کر رہے ہوں گے کہ یہ سلسلہ عام طور پر سادہ لوح ضعیف الاعتقاد لوگوں میں خوب پھلتا پھولتا ہے۔ ہاں البتہ کہیں کہیں کوئی پرانی حویلی اگر گرائی جا رہی ہو تو اس کی بنیادوں میں دفن شدہ کچھ مال و زر ضرور ملتا ہے جو اچھے شگون کے طور پر پرانے مالدار لوگ گھر کی بنیادوں میں دفن کیا کرتے تھے تاکہ لکشمی خوش ہو اور انہیں مالی آسودگی حاصل رہے۔
٭٭٭٭٭
کسانوں کا دہلی چلو مارچ شروع مودی سرکار نے سرحدیں بند کر دیں
تخت دہلی پر ایک مرتبہ پھر کسانوں نے یلغار کر دی ہے یہ وہ کسان ہیں جو مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں اکثریت سکھوں کی ہے جو گزشتہ برس لال قلعے پر دھاوا بول کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ جب خالصتان جھنڈوں کے ساتھ سکھ کسانوں کے لشکر نے لال قلعے پر اپنا پرچم لہرا کر مودی سرکار کو اس کی اصل حیثیت یاد دلا دی تھی۔ اب ایک بار پھر وہی پنجاب کے کسان ہیں اور ان کا لشکر ٹریکٹروں پر سوار ہو کر دہلی کی جانب رواں دواں ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے وہ واپس نہیں جائیں گے۔ اِدھر بھارت میں الیکشن ہونے والے ہیں یوں وہاں کی ہندوتوا کی حامی انتہا پسند مودی سرکار اب سکھوں کا خالصتان کا ڈراوا دے کر ہندو ووٹروں کو پھر متاثر کرے گی اور خود کو بھارت کا پاسبان دکھانے کا ڈرامہ کر کے ووٹ مانگے گی۔ یوں اسے آسانی سے سادہ لوح بھارتی ووٹ دیں گے اور انتہا پسند سوچ والے بھی۔ اب اگر بھارتی اقلیتیں متحد ہو کر کوئی مشترکہ قدم اٹھاتی ہیں اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے ایک ہو کر چلتی ہیں تو شاید بی جے پی کی ظالمانہ پالیسیوں کے آگے بند باندھے جا سکیں ورنہ بھارت پہلے بھی اسی ہندو مسلم تفریق اور ہندو توا کی سوچ اور باتوں کی وجہ سے تقسیم ہوا اور آئندہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
٭٭٭٭٭