اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے مستعفی جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف5 آفیشل گواہوں جبکہ پلاٹ بیچنے والے مالک چوہدری محمد شہباز اور اس کے بیٹے حسن شہباز کا بیان بھی ریکارڈ کرلیا ہے.جبکہ کونسل نے نجی ہاسنگ سوسائٹی کے متعلقہ افسر اور نجی بنک مینجرکو ریکارڈ سمیت آج طلب کرلیا ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوئے اور سپریم جوڈیشل کونسل کی مزید معاونت سے معذرت کر لی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میرا وکالت نامہ جسٹس نقوی کے جج ہونے تک ہی تھا، ریٹائرڈ ججز کے خلاف کارروائی سے متعلق سپریم کورٹ کا بنچ مقدمہ سن رہا ہے۔ عزیز صدیقی کیس میں بھی ایسا ہی نکتہ ہے جو الگ بنچ میں ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عافیہ شیربانو کیس کے فیصلے کا انتظار کریں گے، شوکت عزیز صدیقی کیس میں فیصلہ محفوظ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کیخلاف گواہوں کو بلایا گیا تھا۔ ان کے بیانات ریکارڈ کریں گے، آپ گواہان پر جرح کرنا چاہیں تو آگاہ کر سکتے ہیں۔ پراسیکیوٹر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مجموعی طور پر پانچ آفیشل گواہان کی فہرست پیش کی ہے۔ چیف جسٹس نے گواہ سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کونسی پراپرٹی کا ریکارڈ ہے؟۔ گواہ نے کہا کہ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کی پراپرٹی نمبر100 کا ریکارڈ ہے، 1962 ء میں یہ پراپرٹی محمد افضال کو لیز پر دی گئی۔1967 ء میں یہ پراپرٹی محمد اسحاق کو ٹرانسفر ہوئی، محمد اسحاق نے پراپرٹی اپنی بیوی نسیمہ وارثی کو گفٹ کر دی۔ انہوں نے کہا کہ 2004 ء میں یہ زمین نسیمہ وارثی کی بیٹی بسمہ وارثی کو ٹرانسفر ہوئی، بسمہ وارثی نے اس زمین کو 2 پلاٹس میں تقسیم کیا، بسمہ وارثی کے بعد شوہر چودھری شہباز اور بیٹے حسن شہباز کو یہ پلاٹس ملے، حسن شہباز سے 2022 ء میں پراپرٹی جسٹس مظاہر نقوی نے 10 کروڑ سے زائد میں خریدی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ کے فیصلوں تک کسی فیصلے پر نہیں پہنچے گی۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ مظاہر نقوی کی درخواست پر کارروائی پبلک کے لیے اوپن ہے۔ مظاہر نقوی نے رجسٹرار کو بذریعہ خط مطلع کیا ہے کہ انہوں نے خواجہ حارث سے وکالت نامہ واپس لے لیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ کونسل نے مظاہر نقوی کو اجازت دی ہے کہ وہ کسی بھی گواہ پر جرح کر سکتے ہیں، کونسل کی اوپن کارروائی میں کوئی بھی آ کر گواہ پر جرح کر سکتا ہے۔ دوسرے گواہ کاشف شہزاد کنٹونمنٹ ایگزیکٹو افسر لاہور کینٹ نے زمین پر تعمیرات کا ریکارڈ پیش کیا اور کہا کہ 3 اکتوبر 2022 ء کو جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی نے تعمیرات کیلئے بلڈنگ پلان کی درخواست دی، ملٹری اسٹیٹ افسر نے بلڈنگ پلان کی منظوری دی، تاحال تعمیراتی کام مکمل ہونے کیلئے سرٹیفکیٹ کی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ تیسرے گواہ زمین کی مالیت کے تعین کرنے والی نجی کمپنی کے ڈائریکٹر آصف عزیر نے بیان دیا کہ 25 جون 2022 ء کو سینٹ جونز پارک پراپرٹی کی قیمت27 کروڑ روپے تھی،9 جنوری 2024 ء کو اس پراپرٹی کی قیمت 37 کروڑ روپے ہو چکی تھی۔ چئیرمین جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ اس زمین پر کوئی تعمیرات کی گئی ہیں، آصف عزیر نے جواب دیا کہ زمین پر تعمیرات کی گئیں مگر ہمیں داخلے کی اجازت نہیں۔ چوتھے گواہ زمین کی مالیت کے تعین کرنے والی نجی کمپنی ڈائریکٹر کاشف رحمان نے بیان دیا کہ 25 جون 2022 ء کو 100 سینٹ جونز پارک پراپرٹی کو قمیت25 کروڑ90 لاکھ اور8 جنوری2024 ء کو 35 کروڑ 60 لاکھ تھی، کونسل کے احکامات پر پراپرٹی پر تعمیرات کیلئے وہاں موجود افراد نے داخلے کی اجازت نہیں دی۔ چیئرمین جوڈیشل کونسل نے سوال کیا کہ سینٹ جونز پارک کا علاقہ اتنا مہنگا کیوں ہے، گواہ کاشف رحمن نے جواب دیا کہ سینٹ جونز پارک لاہور کا پوش علاقہ ہونے کی وجہ سے مہنگا ہے۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی عوام کے لئے کھلی تھی، مظاہر علی اکبر نقوی نے خواجہ حارث کو مزید وکالت سے روک دیا۔ جسٹس (ر) مظاہر نقوی کی جانب سے جرح کرنا چاہتے توکرسکتا ہے۔ کونسل نے آئین کے آرٹیکل 210-Aکے تحت حکم دیا کہ رقم کی ادائیگی کے حوالہ سے پے آرڈر بنانے پر عسکری بنک غالب روڈ گلبرگ برانچ کے مینجر ریکارڈ پیش کریں۔ اوریجنل ریکارڈ بھی پیش کریں اورفوٹوکاپیاں بھی فراہم کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے تک کوئی فائنڈنگ نہیں دیں گے۔