ملک محبوب الرسول قادری
اللہ رب العالمین نے کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی انسانوںمیں ان کی رشد و ہدایت کا انتظام بھی فرمایا۔ اصلاح احوال اور عرفان فرد معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ انبیاء و مرسلینؑ کے بعد ہر امت میں معلمین اور مصلحین نے اہم کردار ادا کیا۔ امت مرحومہ آخری امت ہے کہ یہ حضرت سیدنا محمد رسول اللہؐکی امت ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام تاجدار ختم نبوت، قرآن کریم خاتم الکتب اور مسلمان خاتم الامم قرار پائے۔ خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے پانچوں ستون اور پھر ان کے بعد آج تک معلمین و مصلحین نے معاشرے کے اصلاح احوال کا فرض نبھایا۔ عصر حاضر میں حضرت پیر محمد اطہر القادریؒ نے زندگی ایک مشن کے طور پر گزاری۔ وہ ایک ماہر مدرس تھے، معلم تھے، مصلح تھے، شیخ طریقت تھے، عمدہ خطیب و مبلغ تھے، پر تاثیر گفتگو کرتے تھے وہ صرف گفتار کے غازی نہیں بلکہ کردار کے غازی تھے۔ ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں مطابقت تھی۔ وہ منکسر المزاج، خلیق، شفیق اور مہربان شخصیت کے مالک تھے۔ حکیم و دانا انسان تھے۔ ان کی مجالس میں بیٹھنے والے ان کے قریب تر ہوتے گئے دور نہیں ہوئے۔ وہ جوڈیشل کالونی لاہور کے مین گیٹ کے سامنے بڑے پارک کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر اجتماع سے خطاب کرتے۔ ان کے خطبات سادہ، پرمغز اور مقصدیت سے بھرپور و لبریز ہوتے تھے۔ ان خطبات و بیانات کی پذیرائی کا عالم یہ تھا کہ سابق صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری نے ایک مرتبہ ان خطبات کی شہرت سنی تو وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے وہاں آئے اور پھر ہمیشہ نماز جمعہ کے لئے وہیں آتے رہے۔ سابق صدر مملکت محمد رفیق تارڑ، جسٹس منیر احمد مغل، جسٹس میاں نذیر اختر جیسے مقتدر دانشور اور صاحبان علم بڑی باقاعدگی سے ان کے حلقہ خطبات و دروس میں شریک ہوتے رہے۔
پیر محمد اطہر القادری ؒ ایک اچھے قلمکار بھی تھے اہم تہواروں پر ان کے مضامین و مقالات قومی اخبارات کے خصوصی ایڈیشن کی زینت بنتے۔ انہوں نے چند کتب بھی تصنیف کیں۔ ان کے موضوعات ہمیشہ اصلاحی ہی رہے۔ عقائد و معمولات کی اصلاح ہمہ وقت ان کے پیش نظر رہی۔ وہ عملی طور پر صوفی و صافی اعلی تعلیم یافتہ شیخ طریقت تھے۔ وہ سید الاولیاء حضور سیدنا غوث الثقلین میراں محی الدین الشیخ سید عبدالقادر جیلانی رح کے سلسلہ عالیہ کے رکن رکین تھے۔ خانقاہ معلی بغداد شریف سے انہیں فیوضات و برکات نصیب تھیں اور وہ حضرت نقیب الاشراف بغداد السید یوسف عبداللہ الگیلانی البغدادیؒ سے باقاعدہ خلافت و اجازت یافتہ تھے۔ انہوں نے باقاعدہ زاویہ قائم کیا۔ خانقاہ کا سلسلہ شروع کیا۔ سالکین کی تربیت، ارادت مندوں کی دل جوئی، وابستگان کی دل نوازی، مستحقین کی خدمت اور عامتہ المسلمین کی اصلاح احوال کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف عمل رہے۔ اپنے دونوں فرزندان صاحبزادہ معاذالمصطفی قادری اور صاحبزادہ عیاذالمصطفی کو آداب معاشرت سکھائے۔ متعدد مدارس قائم کیے، تحفظ ناموس رسالت کے لئے ملک بھر کے طول و عرض کے دورے کئے اور دل کھول کر اپنا مال صرف کیا۔ عہد کم ظرف میں وہ عزت و وقار اور شرافت و وجاہت کا استعارہ تھے۔ استاذ کا کام طلباء کو ایک مٹھی میں رکھنا ہوتا ہے، لیکن پیر اطہر القادری نے تو طلباء کے ساتھ ساتھ مدرسین کو یکجا رکھنے کے لئے انتھک محنت کی۔ وہ انجمن اساتذہ پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہے اور فکری و عملی طور پر مدرسین میں یکسوئی پیدا کرنے کے لئے مصروف عمل رہے۔ وہ واقعی ایک مثالی استاد اور قوم کے لئے درد دل رکھنے والے عظیم راہنما تھے۔ جن سے ان کے رفقاء نے بھی سیکھا، طلباء نے بھی سیکھا اور سالکین نے بھی سیکھا۔ حق گوئی تو گویا ان کی طبیعت ثانیہ تھی، انہوں نے ہمیشہ سچ بولا اور سچ ہی کا ساتھ دیا اور اکثر اوقات انہیں اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ ایسے ہمہ جہت اور ہفت پہلو دوست کی رحلت اور جدائی یقینا ایک بڑا غم ہے جو ہر سال 13 فروری کو تازہ ہوجاتا ہے۔ اور ہمیشہ فیض احمد فیض کا یہ قطعہ زخموں پر مرھم بن کر یاد آتا ہے کہ
ہمت التجا نہیں باقی، ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اللہ تعالی ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے، اور ان کے تمام وابستگان کو ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین