ٹرمپ کابینہ میں بھارت نواز چہروں کی بھرمار۔
امت مسلمہ اور خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کوئی خیر کی بات کرینگے تو وہ جنت الاحمقاں میں رہتا ہے۔ اب انکی کابینہ میں ہی دیکھ لیں‘ ایک سے بڑھ کر ایک پاکستان مخالف بھارتی نڑاد عہدیدار اور وزراء کھلکھلاتے‘ بتیسیاں نکالتے نظر آرہے ہیں۔ سب سے پہلے تو نائب امریکی صدر بھارتی نژاد ہیں‘ اسکے بعد باری آتی ہے نائب وزیر خارجہ کی‘وہ ہندو ہیں اور اسی صفت سے موصوف بھارت نواز ہیں‘ اسکے علاوہ ڈایریکٹرانٹیلی جنس برائے ایشیاومشرق وسطیٰ بھی ہندو خاتون ہیں۔ یوں ’’
جس طرف آنکھ اٹھائوں تیری تصویراں ہیں
نہیں معلوم یہ ’’بھارت ہے کہ امریکا ہے‘‘
اب بھی اگر کوئی ٹرمپ سے خیر کی امید رکھتا ہے تو وہ اپنی خیرمنائے کیونکہ بھارتی لابی کے ہاتھ میں گھرا ہوا امریکی صدر لاکھ بھارت کو آنکھیں دکھائے‘ دھمکی دے‘ وہ صرف دکھاوے کیلئے ہی ہے۔ یہ واقعی ہاتھی کے دکھانے والے دانت ہیں۔ رہی بات پاکستان کی تو اسے ہاتھی کے اصل کھانے والے دانتوں سے سمجھایا جاتا ہے کہ کیا کرنا ہے ورنہ نتیجہ بھگتو۔ مودی بھی امریکہ آئے ہیں‘ ٹرمپ سے ملنے۔ انکے جپھے اور ہاتھ سے بنی چائے میں بڑی تاثر ہے۔ کیا معلوم وہ ٹرمپ سے کیا کیا منوائیں گے۔ ٹرمپ بھی جانتا ہے کہ بھارت ایک ارب سے زیادہ انسانوں کی بڑی منڈی ہے‘ وہ تارکین وطن اور ٹیکسوں کے معاملے میں شاید مودی کو رعایت دینے کی بات کرینگے‘ ورنہ سب جانتے ہیں بھارتی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کو امریکہ بدر ہونا پڑے گا جو رہی سہی کسر تجارتی ٹیکس پوری کرکے مودی کو اگلے الیکشن میں دربدر ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭
پنجاب کابینہ کا اجلاس‘ چیمپئن ٹرافی کیلئے فول پروف سکیورٹی کا جائزہ۔
بھئی کابینہ کے اجلا س میں کیا ہوتا ہے‘ کیا نہیں‘ یہ عوام کے سوچنے کا مسئلہ نہیں۔ ان کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ کھلاڑیوں کی آمد و رفت کے نام پر شہر میں جگہ جگہ سڑکیں بلاک ہوں گی‘ ٹریفک کا اڑدھام رہے گا اور کہیں آنا جانا مشکل تر ہو جائیگا۔ یہ کوئی ایک دن کا مسئلہ نہیں‘ ہمیشہ کسی بھی عالمی ایونٹ پر لاہور میں قذافی سٹیڈیم کے اردگرد‘ گلبرگ‘ فیروزپور روڈ‘ تا مال روڈ پی سی ہوٹل تک سڑکیں بند ہوتی ہیں۔ یوں لگتا ہے میچ دیکھنے سٹیڈیم نہ جانے والے شہریوں کو سزا دی جا رہی ہے کہ وہ چھٹی کرکے میچ دیکھنے کیوں نہیں جا رہے۔ کام‘ دھندا تو روزانہ ہوتا ہے‘ ابھی چیمپئنز ٹرافی کے افتتاح میں تین روز باقی ہیں اور لاہور والوں کی نیندیں ابھی سے اڑنا شروع ہو گئیں ہیں۔ صوبائی حکومت اپنا ٹریفک پلان جاری کر تو لیتی ہے یہ نہیں دیکھتی عام شہریوں کو کیا ریلیف مل رہا ہے یا مشکلات پیش آرہی ہیں۔ آج تک کوئی ایسا ٹریفک پلان نہیں بنا جو عوام کو ریلیف دے۔ ہاں البتہ شہر کو اس پلان کی بدولت تین یا چار حصوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے اور جگہ جگہ لگے بیریئر منہ چڑھائے لوگوں کی بے بسی پر ہنس رہے ہوتے ہیں۔ اب یہ صورتحال پھر سامنے آنے والی ہے اور لاہوریوں کے چہرے جہاں میچ کی وجہ سے جگمگا رہے ہیں‘ وہیں پر ہوائیاں بھی اڑتی نظر آرہی ہیں کہ اب کئی دن انہیں بہت کچھ بھگتنا پڑیگا۔ مگر پریشان ہونے کی زیادہ ضرورت نہیں‘ بڑے بڑے شہروں میں چھوٹے چھوٹے حادثات پیش آتے ہی رہتے ہیں۔ لاہوری تو ویسے بھی مہمان نوازی میں مشہور ہیں‘ مہمانوں کی طرف سے اگر کوئی تکلیف برداشت کرنا پڑے تو مسکراتے ہوئے کر لیتے ہیں۔
٭…٭…٭
کراچی کے لاپتہ نوجوان کے قتل کا معمہ ایک ماہ بعد حل۔
پیسے والے لوگ نجانے کیوں اپنی اولاد کی حرکتوں سے لاعلم رہتے ہیں۔ شاید یہ دنیا کمانے سے انہیں اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ بچے کیا کر رہے ہیں۔ پیسہ کھلا ہو تو ہاتھ کہاں رکتا ہے اور حساب کتاب کون کرتا ہے۔ کراچی کا یہ 23 سالہ نوجوان مصطفی بھی ایسے ہی ماحول میں جی رہا تھا۔ مہنگی گاڑیوں میں چکر‘ نوٹوں سے بھرا بٹوہ اور پینے پلانے کے ماحول میں دوست بھی ویسے ہی بنتے ہیں جیسا بندہ خود ہوتا ہے۔ منشیات فروشوں یا سمگلروں سے اسکے تعلقات بن گئے‘ کیا گھر والے پھر بھی بے خبر رہے کہ کہاں جاتا ہے کہاں سے کب آتا ہے۔ مشاغل کیا ہیں‘ یہ عمر تو ہوتی ہی خطرناک ہے۔ بگڑے بچوں پر زیادہ نظر رکھی جاتی ہے۔ مگر نظر نہ رکھنے کا نتیجہ آج ایک بار پھر سب نے دیکھ لیا۔ دوست کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی‘ نیوایئر نائٹ کو اگلے چند روز بعد اسے دوست ارمغان نے گھر بلایا پھر وہ لاپتہ ہو گیا۔ پولیس نے سر توڑ کوشش کی مگر سراغ نہ ملا۔ مقتول کے گھر والے بھی شور کرتے رہے کہ ہم نے پولیس کو اطلاع دی تھی طرح طرح کی کہانیاں گھڑی گئیں کہ ارمغان نے دو شیر رکھے تھے‘ اس نے فیصل کو قتل کرکے شیروں کو کھلا دیا۔ اس لئے اب وہ شیر کہیں اور منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ مگر خون کہاں چھپتا ہے۔ بالآخر مقتول کے موبائل فون اور قالین پر خون کے دھبوں نے راز فاش کر دیا۔ پتہ چلا کہ ملزم نے اسے فائرنگ کرکے قتل کیا اور لاش ساتھیوں کی مدد سے کار میں ڈال کر حب لے جا کر کار سمیت جلا دیا جو برآمد ہو چکی ہے۔ لاش ایدھی والے دفنا چکے۔ملزم پہلے ہی گرفتار ہو چکا ہے۔ پورا ایک ماہ یہ پراسرار قتل میڈیا پر اور پولیس کیلئے ایک چیلنج بنا رہا۔ طرح طرح کے فسانے تراشے گئے‘ لوگ بہت پریشان تھے۔ گھر والوں کی پریشانی اپنی جگہ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر وہ ذرا توجہ اپنی جوان اولاد پر دیں تو ایسے سانحات سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر پیسوں کی ریل پیل یہ کرنے نہیں دیتی۔ کیا امیر کیا غریب‘ ہمت نہیں رکھتے کہ اولاد سے پوچھیں کیا کر رہے ہو۔ یہ نشہ کب سے کر رہے ہو‘ یہ اسلحہ کہاں سے آیا‘ چپ رہتے ہیں اور بعد میں لاپتہ یا قتل ہونے پر روتے رہتے ہیں۔
٭…٭…٭
خط کے جواب نہ ملنے اور شیر افضل مروت کو نکالنے کا غم۔
اس وقت سمجھ نہیں آرہا کہ تحریک انصاف کے بانی سے اظہار تسّلیت کریں‘ انہیں پرسہ دیں کہ دل چھوٹا نہ کریں‘ خط لکھنے کی مشق جاری رکھیں‘ جواب آئے نہ آئے۔ خط منزل مراد تک پہنچے یا نہ پہنچے مشق جاری رکھیں۔ کبھی نہ کبھی تو بقول شاعر
کبھی تو میری کھلے گی قسمت
کبھی تو ان سے وصال ہوگا
کا لمحہ بھی آسکتا ہے۔ ورنہ ایک قیدی کی ڈائری یا قیدی کے خطوط نامی کتاب تو تیار ہو ہی جائیگی۔ جس کا آغاز اس شعر سے ہوسکتا ہے کہ:
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہونگے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
دوسری طرف ایک اور گرماگرم موضوع شیر افضل مروت ہے‘ جن کو نکالے جانے پر پی ٹی آئی میں بھی شور ہو رہا ہے کہ غلط ہوا۔ خود مروت بھی کہہ رہے ہیں مجھے کیوں نکالا۔ قیدی سے ملنے والے 10 وکلاء میں سے 9 انکے کان بھرتے ہیں۔ ایک مقدمہ بارے بات کرتا ہے‘ اب ایک طرف وکلاء گروپ ہے‘ دوسری طرف سیاست دان‘ جن میں ٹھن گئی ہے۔ وکلاء مروت کے مخالف اور سیاست دان حامی ہیں۔ گزشتہ روز عجیب تماشا تب لگا جب مروت قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے تو اپوزیشن والوں کو سانپ سونگھ گیا جو پہلے انکی آمد پر تالیاں بجاتے تھے‘ منہ لٹکائے بیٹھے رہے۔ حکومتی ارکان نے ڈیسک اور تالیاں بجا کر مروت کو خوش آمدید کہا۔ اس پر سپیکر کو کہنا پڑا کہ لگتا ہے آپ لوگ اس کو مرائو گے۔ مروت نے بہرحال مروت دکھائی اور سخت زبان و بیان کے باوجود اپنے بانی کا خیال رکھا ورنہ سب جانتے ہیں کہ انکے بے ساختہ جملے آن واحد میں ملک کے لوگ چٹخارے لے کر بول رہے ہوتے ہیں۔ اب بانی سے انہیں اسمبلی سے نکالنے کا بھی کہا گیا ہے تو دیکھتے ہیں وہ کب تک اس فلور پر چہکتے ہیں۔ بس یاد رہے پنجرے سے نکلا ہوا شیر زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
٭…٭…٭