افغانستان میں امن اور بھارتی آشا

Jan 16, 2011

پروفیسر محمد یوسف عرفان
بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے افغان ہم منصب زالمے رسول کیساتھ پریس کانفرنس منعقدہ کابل 10 جنوری 2011ء کہا کہ افغانستان میں امن کا عمل پاکستانی خواہش کیمطابق نہیں ہو سکتا۔ سیکورٹی (حفاظتی) خدشات کے باوجود افغانستان کی مدد جاری رکھیں گے۔ نیز (مجاہدین) طالبان سے مذاکرات، مصالحت اور افغان حکومت میں نمائندگی کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا اور ایک لاکھ ٹن گندم کی امداد کا اعلان کیا جبکہ امریکی محکمہ خارجہ کے نمائندے فلپ جے کراؤلی نے 12 جنوری کو بیان دیا کہ بھارت علاقائی اور عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور افغانستان سے تعلقات قائم کرنا اس کا حق ہے۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے 13 جنوری 2011ء بمقام اسلام آباد بیان دیا کہ پاکستان شدت پسندوں یعنی پاکستانی (مجاہدین) طالبان کیخلاف کارروائی تیز کرے اور پاکستان افغانستان کی خودمختاری کا خیال رکھے۔ افغان قوم ضرورت اور مجبوری کے مطابق متاثر ہوئی ہے مغلوب نہیں ہوئی۔ افغانستان ایک خودمختار ریاست ہے جس کے چاروں جانب خشکی ہے۔ افغانستان عالمی، علاقائی تجارت اور درآمد و برآمد کیلئے کراچی کی بندرگاہ استعمال کرتا ہے۔ دلی کے مسلمان حکمرانوں کے دور اور ماقبل دور میں ممبئی کی بندرگاہ بھی افغانیوں کے زیر استعمال رہی۔
آج گوادر بندرگار بھی تیار ہو گئی ہے نیز وسط ایشیا کے علاوہ پاک افغان خطے بھی معدنی وسائل سے مالا مال ہیں ان معدنی اثاثوں اور راستوں کو استعمال کرنیوالا ملک دنیا کا مال دار ترین ملک ہو گا۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ (تجارتی راہداری) امریکی مرضی اور دباؤ کے تحت ہوا جس کا فائدہ اتحادی ممالک اٹھائیں گے جبکہ اتحادی ممالک میں اہم ترین ممالک بھارت اور اسرائیل ہے۔
امریکی رقبہ بڑا ہے اور سیاست و معیشت پنجہ یہود میں ہیں۔ امریکی اور عالمی بینکاری کے ادارے یہودیوں کے ہیں۔ چین عالمی معاشی قوت ہے چین میں ہنود ویہود کا اثرورسوخ فی الحال کم ہے اگر (خاکم بدہن) اتحادی ممالک کے پردے میں ہنود ویہود افغانستان میں مضبوط اور مستحکم ہو گئے تو چین بھی تجارتی راہداری کیلئے ہنود ویہود کا باجگزار ہوگا۔ خطے میں ہنود ویہود کے مذکورہ اہداف میں نظریاتی جوہری اور عسکری پاکستان کے علاوہ دین و وطن کیلئے جان دینے والے مزاحمتی مجاہدین ہیں جو پچھلی تین دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔ شہید جہاد افغانستان جنرل محمد ضیاء الحق نے پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی مدد سے بھارتی، یورپی، امریکی و اسرائیلی حلیف عالمی طاقت روس کو شکست دی۔ امریکی امداد افغان جہاد کے تقریباً تین برس بعد آنا شروع ہوئی اور شہید صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی شرائط پر آئی تھی۔ جونیجو کا جنیوا معاہدہ خطے میں اتحادی ممالک کے قدم جمانے اور پاک فوج اور مجاہدین کے خلاف بنیاد فراہم کرنے کا عہد نامہ ہے جس کے تحت خطے میں امن کے قیام کیلئے عالمی برادری کو ذمہ داری دیدی گئی اور پاکستانی فوج اور مجاہدین کو عالمی اتحادی برادری کے تابع رکھنے کی کوششں تاحال جاری ہے۔
سانحہ بہاولپور 17 اگست 1986ء کے بعد امریکہ نے عالمی برادری کی امداد کے نام اور امن کے قیام کیلئے من مانی شرائط اور پالیسی اپنا لی ہے، بدقسمتی سے پاکستان کے تمام فوجی اور جمہوری حکمران عالمی برادری و اتحادی ممالک کی دباؤ پالیسی کے تحت امریکہ اور عالمی یہودی اداروں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں اس عالمی گیم کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔
افغانستان میں ہندو بھارت کے اہداف نئے نہیں نظریاتی، جوہری اور عسکری پاکستان کیخلاف ہندو بھارت کی پہلی دفاعی لائن افغانستان ہے جبکہ پاک افغان خطے پر عملداری کا خواب پرانا ہے۔ ہندو بھارت کی پالیسی اکھنڈ بھارت کی بحالی ہے جس میں افغانستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور برما شامل ہیں۔ بھارت بنگلہ دیش تجارتی اور ترقیاتی معاہدے اکھنڈ بھارت کے غماز ہیں۔ بھارت نے برما اور بنگلہ دیش سے ملحق بھارتی ریاستوں کیلئے زمینی راستے اور راہداری پر قبضے کے معاہدے کر لئے ہیں۔ بھارت اسی قسم کے معاہدے پاکستان سے کرنا چاہتا ہے۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ اکھنڈ بھارت کی جانب پیش قدمی ہے۔ بدقسمتی سے سقوط ڈھاکہ کے وقت جو نام نہاد جمہوری پارٹیاں مغربی و مشرقی پاکستان میں سیاستکاری کر رہی تھیں وہی پارٹیاں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں حکمران ہیں۔ یہودی ہندو برہمی کا نسلی، علاقائی اور عالمی حلیف ہے یورپی اور امریکی منڈی یہودی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ سے لگا کر چینی کمپنیوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اس وقت یہودی چینی کمپنیوں میں اثرورسوخ بڑھارہا ہے۔ نیز یہودی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہندو برہمی نے اشتراک کے ساتھ چندی گڑھ (پنجاب) میں ٹیکس فری تجارتی زون دے رکھا ہے۔ ہنود ویہود کی پالیسی ہے کہ جوہری اور نظریاتی پاکستان کی فوج دین و وطن سے محبت کرنے والے مجاہدین سے لڑتے لڑتے کمزور ہو جائے تاکہ ہنود ویہود اور صلیبی اتحادی ممالک کو خطے میں مستحکم ہونے میں سہولت رہے۔ اے کاش پاکستان کے مقتدر طبقے اور مجاہدین کفار و مشرکین کے اس فتنے کو سمجھیں اور تدارک کریں۔
مزیدخبریں