اسلام آباد ( خصوصی رپورٹر) مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے ملک کی تیزی سے تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال پر مشاورت کے لیے آج متحدہ اپوزیشن کا سربراہی اجلاس بلا لیا۔ اجلاس لاہور میں ہو گا۔ اجلاس میں آئین کے تحفظ جمہوریت کی بقائ، قومی اتفاق رائے کی نگران حکومت بلا تاخیر عام انتخابات ، بلوچستان، کراچی کی صورتحال کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔ نواز شریف نے اپوزیشن جماعتوں کے ا جلاس کے لیے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی ، امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن، جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن ، نیشنل پارٹی کے سربراہ مولانا عبد المالک بلوچ، سینیٹر میر حاصل خان بزنجو، لیاقت بلوچ، جمہوری وطن پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) پاکستان تحریک انصاف اور پارلیمنٹ سے باہر اپوزیشن کی دیگر قوم پرست سیاسی و دینی جماعتوں کی قیادت و رہنماﺅں سے خود رابطے کیے ہیں اور اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ اجلاس دن 12 بجے لاہور میں ہو گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ملک کو آئین کے تحت چلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ فیصلے کرنے کیلئے ادارے موجود ہیں، فیصلے وہ کریں جن کے پاس اختیار ہو جو سیاسی جماعت اپنے مطالبات پر قائم نہ رہ سکیں وہ ملک کیا سنبھالیں گی۔ دھرنوں کے ذریعے مطالبات منوانے کی روایات مثبت نہیں۔ نظام میں خرابیاں ضرور موجود ہیں، طاہر القادری 5 سال سے کہاں غائب تھے۔ آئین سے ماورا اقدام کسی کے حق میں نہیں۔ آئی این پی کے مطابق مسلم لیگ ن نے طاہر القادری کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے الٹی میٹم اور دھمکیوں کو مسترد کردیا۔ نواز شریف کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) کے غیر رسمی اجلاس میں وزیراعلی شہباز شریف، قائد حزب اختلاف چودھری نثار، پرویز رشید، اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، سعد رفیق نے شرکت کی۔ میاں نوازشریف کا کہنا تھا کہ کسی شعبدہ باز کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ہر صورت جمہوریت کا تحفظ کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ آمریت کے دور میں بھیگی بلی بننے والے آج جمہوریت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں مگر وہ اپنے کسی ایجنڈا میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جمہوریت کی بقاء چاہتی ہے اور اسے کسی بھی صورت ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جمہوریت کی بقاءکیلئے قربانی دینے والی جماعتیں کبھی بھی اس سسٹم کو ختم نہیں ہونے دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام بیدار ہیں اور جمہوریت پر پہرہ دے رہے ہیں اب ملک میں کسی کٹھ پتلی تماشے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ علاوہ ازیں نواز شریف اور وزیراعلی شہباز شریف نے آج تعزیت کیلئے آنے والوں سے ملنے کا پروگرام منسوخ کر دیا۔آج کے اجلاس میں جن سیاسی رہنما¶ں نے اجلاس میں شرکت کی تصدیق کر دی ہے ان میں مولانا فضل الرحمن، منور حسن، پروفیسر ساجد میر، میر حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی، طلال بگٹی، حامد ناصر چٹھہ، سلیم سیف اللہ اور آفتاب شیرپا¶ شامل ہیں۔ ہمایوں اختر خان نے رابطے پر بتایا کہ وہ ملک سے باہر ہیں اس لئے شرکت نہیں کر سکتے۔ نواز شریف نے پیر پگارا سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور انہیں آج کے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ پیر پگارا نے غلام مصطفی کھر کو اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی۔
لاہور (خصوصی رپورٹر) مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف اور شہباز شریف سے ملاقات کیلئے آنے والی مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے طاہر القادری کے لانگ مارچ دھرنے کے پروگرام کا آغاز جاتی عمرہ رائے ونڈ میں ٹیلی ویژن پر دیکھا۔ اس موقع پر چودھری نثار، اسحاق ڈار، خواجہ آصف، سینیٹر مشاہد اللہ خاں، خواجہ سعد رفیق، سینیٹر پرویز رشید، احسن اقبال، جنرل (ر) عبدالقادر، رانا ثناءاللہ سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں کی عمومی رائے تھی کہ اس تمام صورت حال کا باقاعدہ پارٹی اجلاس میں جائزہ لے کر ہی ردعمل دینا چاہئے۔ سو مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے آج بدھ کو پارٹی کا باضابطہ اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اس اجلاس میں بعض آئینی ماہرین کی شمولیت بھی متوقع ہے تاہم مسلم لیگ (ن) کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے ڈاکٹر طاہر القادری کے اعلانات کو آئین پاکستان سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری سے سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کی بو آ رہی ہے۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے میڈیا سیل کی جانب سے جاری بیان میں احسن اقبال نے مزید کہا کہ چند ہزار مریدوں کی دارالخلافہ پر لشکر کشی سے پاکستان فتح نہیں کیا جا سکتا۔ نواز شریف کا راستہ روکنے کیلئے 1999ءوالا گرینڈ الائنس ایک مرتبہ پھر سرگرم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1999ءوالے گرینڈ الائنس کے مرکزی کرداروں میں بھی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے میں 8 ہفتے باقی ہیں، لانگ مارچ ناٹک کا مقصد سوائے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے کچھ نہیں ہے۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف کے اعلیٰ عہدیداران کے اجلاس میں ڈاکٹر طاہر القادری کے 7 نکات کو اپنانے کی بجائے ان کے 6 نکات سے اتفاق کرتے ہوئے 7ویں نکتے پر حکمت عملی کے حوالے سے اختلاف کیا گیا۔ دریں اثناءمسلم لیگ ہم خیال، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے رہنماﺅں نے بھی موجودہ صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ عام انتخابات موخر نہیں ہونے چاہئیں۔