میں ہوں ارفع کریم اور میں ہوں پاکستان !

2004میں دنیا کی سب سے کم عمر مائکرو سوفٹ سرٹیفائڈ پروفیشنل کا ایوارڈ لینی والی 9سالہ ارفع کریم کی 14جنوری2014 دوسری برسی  تھی۔ٹیکنالوجی کی دنیا میں چمکنے والا ستارہ بہت جلد غروب ہوگیا تھا ۔سولہ سال گیارہ مہینے بھی کوئی مرنے کی عمر ہوتی ہے ؟ یہ تو  زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رقص کرنے کی عمر ہوتی ہے اور وہ پاکستان کو ایک امید دکھا کر خاموشی سے چلی گئی ۔ پتہ نہیں پاکستان انوکھا لاڈلا ہے جس کی قسمت میں کھیلن کو چاند نہیں ۔۔۔
( ارفع نے آخری غزل یہی گائی تھی )۔
کرنل امجد عبدالکریم رندھاوا، ارفع کے ابو ،پاک فو ج ، جس کا کام سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرنا ہوتا ہے ،انہوں نے ارفع کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا ہتھیار دیا جس نے بین الاقوامی سطح پر ملک کا دفاع کیا ،وہ دنیا کو پاکستان کا ایسا چہرہ دکھا گئی جسے چھپایا جاتا ہے ۔ ساری دنیا میں پاکستان کا imageایسا بنا دیا گیا ہے کہ عام امریکی یا مغربی لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر مرد ہر عورت کو یا مار رہا ہے ، یا اس کے منہ پر تیزاب پھینک رہا ہے یااس کی شادی قران سے کروا رہا ہے یا زندہ دفن کر رہا ہے یا زندہ جلا رہا ہے یا تعلیم کے نام پر اسے گولی ماری جارہی ہے ۔پاکستان میں عورت کا تعلیم سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔یہ پاکستان کا خاکہ نہ صرف غیر بلکہ خود پاکستانی بھی پوری دنیا کو پیش کر رہے ہیں ۔ دوسرے کم شور مچاتے اپنے زیادہ آسمان سر پر اٹھاتے ۔ایسے ہی کسی تاثر کے زیرِ اثر بل گیٹس نے  اپنی دس منٹ کی ملاقات میں ارفع کریم سے پوچھا "اوہ تو یہ بھی پاکستان کا ایک چہرہ ہے کہ تمھاری جیسی لڑکیاں وہاں ہیں ؟ورنہ میں تو یہی سمجھتا تھا کہ وہاں لڑکیوں کو پڑھنے نہیں دیا جاتا  "ارفع نے بڑے اعتماد سے بل گیٹس کی آنکھوں میں  دیکھتے  ہوئے کہا، پاکستان کا بس یہی چہرہ ہے البتہ میں نے آپ کے ہیڈ کوارٹرکا دورہ کیا تو میرے مشاہدے میں یہ آیا کہ یہاں عورتیں آدمیوں کی نسبت بہت کم ہیں ۔ کبھی آپ میرے رام دیوالی گائوں میں آئیں تو آپ کو پتہ چلے کہ کتنی عورتیں کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور اس سے بھی زیادہ کتنی عورتیں ہیں جو ٹیکنالوجی میں جانا چاہتی ہیں "بل گیٹس لاجواب ہوگیا ۔ یہ تھی ارفع کریم ۔اور یہ ہے پاکستان کا چہرہ ۔ جسے بل گیٹس نے امریکہ کے ۴ روزہ دورے پر خود مدعو کیا۔
ارفع کو فاطمہ جناح گولڈ میڈل ،صدارتی تمغہ اور سلام ِ پاکستان یوتھ ایوارڈ بھی ملے۔چھوٹی سی عمر میں سب کچھ کر لیا ۔اپنے آبائی گائوں میں گرلز سکول میں کمپیوٹر لیب بنوائی او ر جب اس سے پوچھا جاتا کس کارنامے پر فخر ہے تو بجائے اپنی ذاتی  achievements کا ہی  ذکر کرتی ،دمکتے چہرے سے اپنی اس لیب والے کارنامے پر فخر کرتی ۔
اور پھر سفید گلاب زمانے کی سختی جھیلنے سے پہلے ہی ، معصوم اور تازہ کھلا کھلا ہی ، ہنستا ، مسکراتا چلا گیا ۔
عُروجِ آدم ِ خاکی سے انجم سہم جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا کہیں مہِ کامل نہ بن جا ئے
یہ تھی ارفع کریم اور یہ ہے پاکستان کا چہرہ ۔ جو گا رہی ہے ۔۔اکھاں چھم چھم وسیاں ۔۔دلاں دئیاں گلاں دلاں وچ رہ گئیاں ۔
وہ چھوٹی عمر میں اگر بڑے بڑے کارنامے کر گئی تو وہ اپنا نا مکمل سفر دنیا میں رہنے والوں کے لئے چھوڑگئی ۔پاکستانیوں کے لئے پاکستان کا دفاع کرنے کا بہت اچھا طریقہ بتا گئی ۔ تعلیم میں آگے بڑھ کر پاکستان کو دنیا بھر میں اس کے اصل چہرے کے ساتھ متعارف کروایا جا سکتا ہے ۔ارفع کی چمکتی آنکھوں کا خواب ،اس کی امانت ہے جو وہ ہمیں سونپ گئی ہے ۔اس کی دوسری برسی پر جب  شہری اس کی قبر پر گئے ہوں گے تو قبر کی مٹی ،جو پچھلے سال کی نسبت تھوڑ ی خشک ہو چکی ہوگی ان سے سوال کیا ہو گا "تو پھر کیا کیا اب تک ؟"
یاد رکھنا ہماری تُربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
(ساغر صدیقی)
وہ پھول ، جو ارفع کے خواب تھے ۔پاکستان کے عام لوگوں کو کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی میں آگے لے جانے کے ،وہ کیا ہوئے ؟ کس حکومت نے ؟ کس امیر آدمی نے؟ ارفع کریم کے نام پر کوئی بڑا فنڈ بنا کر اس کے خواب کو تعبیر دینے کی کوشش کی ؟ ارفع کریم کے نام پر پارک کا نام رکھ دینا ، رام دیوالی گائوں کو ارفع کریم گائوں کا نام دینا ،یہ سب سجاوٹیں بھی ٹھیک مگر وہ خواب کیا ہوئے جو ارفع کی معصوم آنکھوں نے دیکھے تھے ۔
"میں انڈیا کی silicon valley کی طرح پاکستان میں digicon valleyبنانا چاہتی ہوں ۔ جو کمرشل نہیں ہوگی ، بلکہ پاکستان کی bettermentکے لئے ہوگی ۔ جہاںغریب سٹوڈنٹس کے لئے سب کچھ مفت ہوگا "ارفع جب کسی کو انٹر ویو دیتے ہوئے یہ خواب سنا رہی تھی تو اس  سفید گلاب ، چمکتے چاند کی معصومیت میری آنکھوں کو نم کر گئی ۔ ارفع معصوم پری یہ نہیں جانتی تھی کہ جس راستے پر وہ ہے ، پاکستان سے محبت کے ،وہ راستہ کہیں نہیں جاتا،اس راستے کو نہ تو حکومت ِ پاکستان پسند کرتی ہے نہ عام پاکستانی ۔کیونکہ حکومت ِ پاکستان تو ہمیشہ ہی عقل سے عاری اور خود غرضی کی عینک پہنے ہوتی ہے، مدد کرنے کو ذاتی جیب سے آگے انہیں کوئی اور جیب نظر نہیں آتی ،اور عام آدمی روٹی پانی گیس کے چکر میں اتنا سوچتا ہی نہیں کہ ملک کیا اور ملک کا دنیا میں image کیا ، وہ اپنے ہیرو اور ولن پہچاننے کے قابل ہی نہیں کیونکہ جس حکومت نے انہیں بتانا ہے کہ یہ ہمارا ہیرو ہے ا ور یہ دشمن ، وہ بھی کب یہ سوچنے میں آزاد ہے؟ ۔ ہاں اگر وہ پاکستان کا کوئی منفی روپ اجاگر کرتی تو پاکستان مخالفوں نے اسے اور اس کے  دنیا سے جانے کے بعد بھی اس کے نام اور خواب کو کہاں سے کہاں پہنچا دینا تھا ۔ لاکھوں کروڑوں کے فنڈز اس کے نام پر اکٹھے ہوجا نے تھے،انسانی حقوق اور عورتوں کی پاکستان میں تعلیم کے نام پر بنائی جانیوالی تنظیموں ،سول سوسائٹی نے اس کے مشن کو آگے بڑھانا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب سب خاموش کیوں ہیں ؟رفع کی قبر پر جاکر دو پھول اور دو موم بتیاں جلانے سے ، یا اس کی قبر کو مقبرہ بنانے سے ارفع خوش نہیں ہوگی ۔
 اس کی پھوپھو نے بتایا کہ ایک دن باورچی کے ہاتھ کے پکے آلو بیگن پسند نہ آئے تو باورچی کو کہا دیکھو میں پکاتی ہوں ، پکا کر کہا "لو، مرو ،اب کھا کے دیکھو ،ایسے پکاتے ہیں   "اگر ارفع کریم کے خوابوں کو ، مشن کو ایسے ہی چھوٹے چھوٹے لالی پاپ دے کر بہلانے کی کوشش ہی ہوتی رہی تو ارفع کی روح تڑپ اٹھے گی اور کہے گی "لو ، مرو ، دیکھو ،ایسے اپنے ہیروز کے خواب کو آگے چلا یا جاتا ہے "
ارفع کے امی ابو جب میرے پروگرام دستک میں ارفع کو یادکر رہے تھے تو وہ عاجزی کی تصویر بنے "ارفع فائونڈیشن"کے لئے ہر طرح کی مدد ، پرانے ڈیسک ٹاپ سے لے کر ، ٹیکنکل مدد ، فنانشل مدد ہر وہ مدد جو پاکستان کے ماتھے پر چمکنے والے ہمارے چاند ،ہماری گڑیا کے خواب کی تکمیل تک لے جائے۔ میرے گلے میں آنسو کا گولہ سا پھنس گیا۔جن ماں باپ نے ہمیں ارفع کریم دی ہم انہیں کیا دے رہے ہیں ؟
مجھے اس بات کا جواب چاہیئے جس کو مغرب ہمارا ہیرو نہ کہے ہم بھی اسے ایسے ہی اکیلا چھوڑ دیں گے ؟ کیا پاکستان سے محبت کی سزا تنہائی ہے ؟ وقت کے اندھیرے میں اپنے آپ کو پہچاننے کا نتیجہ اندھیرا ہی اندھیرا ؟ پاکستان کے غریب لوگوں کے لئے خلوص اور دردِ دل سے سوچنا جرم ؟ عورتوں کی تعلیم کی بات بغیر پاکستان کے منفی تاثر کے کرنا فضول کام ؟
 غیروں سے کوئی شکوہ نہیں ،پاکستان اور پاکستانیوں نے ارفع کریم کو اکیلا کیوں چھوڑ دیا ؟ حالا نکہ ارفع پاکستان ہے ۔ تو اس کے خواب پورے نہ کر کے یا مار کے ،پاکستان خود کشی کیوں کر رہا ہے ؟پاکستانی خود کشی کیوں کر رہے ہیں ؟زند ہ کیوں نہیں رہتے ؟مردہ کیوں ہورہے ہیں ؟ارفع کریم کی دوسری برسی ہے اور ہم … صرف موم بتی جلا سکتے ۔ خواب روشن نہیں کر سکتے ۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...