دبئی کے شیخ خاندان کا عشائیہ : وینا ملک، ان کے شوہر اور مشہور عالمی مبلغ نے بھی شرکت کی !
لگتا ہے وینا ملک کی شادی کے ساتھ ہی دینی معاملات میں دلچسپی بڑھ گئی ہے یا ہمارے مولانا صاحب بھرپور کوشش میں ہیں کہ وہ وینا ملک کو نیکی کی راہ پر لگا دیں اور پھر ہمارے سامنے ایک بدلی ہوئی وینا ملک ہوں گی بلکہ ویسے ہی جیسے بھارت میں نظر آنے والی وینا کوئی اور جبکہ پاکستان میں نظر آنے والی کچھ اور ہوتی ہے۔
ویسے بھی مولانا کی پہلے سپورٹس کی دنیا پر نظرِ کرم رہی اور کئی کھلاڑی ہدایت کی راہ پر چل پڑے جب انہوں نے فلمی دنیا پر توجہ دی تو جنید جمشید جیسا گلوکار اور کئی دیگر ساتھی فنکار بھی ان کی نظرِ خاص سے بدل گئے، اب لگتا ہے وینا ملک کی باری آنے والی ہے، دیکھتے ہیں اب وہ بدلتی ہیں یا کہیں مولانا صاحب ہی نہ بدل جائیں۔ ویسے وہ ایک بڑے عالم ہیں مگر عرب شیوخ ان سے اتنے قریب ہونے کے باوجود بدل نہ سکے ویسے کہ ویسے ہی رنگین مزاج ہیں اب تک ہماری طرح کے ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ والی حالت سے انکی بھی اب یہ عربوں کے محلات میں عشائیے ہوں تو لذتِ کام و دہن کا وسیع پیمانے پر اعلیٰ ترین انتظام تو ہوتا ہی ہے اور پھر وینا ملک نے دبئی میں شیوخ کے ہمراہ شاہین کے شکار میں بھی حصہ لیا، ہمیں تو اس پر گانا یاد آ رہا ہے … ؎
کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ
رہنے دو ظالم بنائو نہ دیوانہ
کیونکہ ان تقریبات میں یہ غارت ہوش و ایمان نجانے کتنی حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہو گی اور کئی حضرات تو غالب کی طرح ’’ قیامت کے فتنے کو ہم دیکھتے ہیں‘‘ کہتے ہوئے آہیں بھرتے ہوں گے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
یورپی ملکوں کو پاکستانی سفارتکاروں کیلئے نان فیملی سٹیشن قرار دینے کی تجویز مسترد!
’’چلو جی کھا لو پی لو موج منا لو‘‘ حکومت کی بچت کی مہم شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ وزیر خزانہ کا خیال تھا کہ اس طرح غیر ملکی سفارت خانوں کے سرکاری اخراجات میں کمی آئے گی اور پورے خاندان کے ساتھ مفت میں یورپی ممالک میں مقیم سفیروں کے اخراجات کے حوالے سے انکی فیملی کی رہائش کے پیسے بچ جائیں گے مگر وہ بھول گئے کہ جن ’’بلائوں‘‘ کو خون کا چسکا لگ چکا ہوتا ہے ان سے یہ عادت چھڑوانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ دیکھ لیں سفیر صاحب خود تو چلو سرکاری امور کی انجام دہیکیلئے غیر ممالک میں جاتے ہیں ان کے اہلخانہ نے وہاں جا کر کونسا تیر چلانا ہوتا ہے سوائے اس کے کہ سفارتکاری کے دور میں وہاں کے مزے لوٹیں۔
یہ حقیقت بھی سب کو معلوم ہے کہ سفیر عام طور پر وہی حضرات مقرر ہوتے ہیں جو صاحبِ حیثیت ہوتے ہیں اور کافی مالدار آسامی کے ساتھ ساتھ ان کی حکمرانوں سے کافی اچھی گاڑھی چھنتی ہے اور یوں میرٹ کا کھلے عام قتل کر کے انہیں سفیر بنا کر بھیجا جاتا ہے۔ اگر میرٹ پر سفیر بننے کے لائق افراد کا تقرر کیا گیا ہوتا تو آج ہمارے ملک کے بیشتر سفارت خانوں کا جو حال ہے وہ نہ ہوتا۔ کسی بھی غیر ملک میں مقیم پاکستانیوں سے ان کے سفارت خانوں کی کارکردگی پوچھیں ساری اصلیت سامنے آ جائے گی، نہ انہیں ٹریڈ کا پتہ نہ سیاسی و معاشی معاملات کا، نہ زبان کا نہ ماحول کا۔ ملک کو فائدہ پہنچانے کی بجائے یہ سفیران کرام صرف اپنا فائدہ سوچتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی سرکاری خرچے پر عیاشی کراتے پھرتے ہیں۔ بہتر ہے کہ حکومت اب ایسے افراد کو مقرر کرے جو غیر شادی ہوں اس طرح اس کی توجہ گھر والوں کی شاپنگ اور سیر و تفریح کی بجائے دونوں ممالک میں بہتر سیاسی سماجی تجارتی تعلقات پر مرکوز ہو گی اور غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے بھی وہ وقت دے سکیں گے اس طرح شاید وزیر خزانہ کی بچت کی خواہش پوری ہو جائے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
ارفع کریم کی برسی گزشتہ روز اس عزم سے منائی گئی کہ ان کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھا جائے گا۔ حکومت پنجاب نے پاکستان کی اس مایہ ناز بیٹی کی یاد میں جو عالیشان ارفع کریم آئی ٹی سنٹر بنایا ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی ظاہری چمک دمک کے ساتھ عظمت کے مینار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے میدان میں علم کی اس شمع سے روشنی پا رہے ہیں اور یوں یکے بعد دیگرے شمع سے شمع جل رہی ہے، جدید ٹیکنالوجی کا نور پھیل رہا ہے۔ فراز نے سچ کہا تھا …؎
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اس وقت ملک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ارفع کریم جیسی لائق ہونہار بیٹیوں اور بیٹوں کی ضرورت ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس میدان میں ہماری بچیوں اور بچوں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب تعلیم کے میدان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کئی نام ارفع کریم اور ملالہ کی طرح روشن ستارے بن کر جگمگا رہے ہوں گے۔ یہ بھی خوشی کی خبر ہے کہ او لیول کمیبرج کے امتحان میں 18 سالہ پاکستانی طالب علم شاہ زیب عباس نے ’’ریاضی‘‘ میں دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی، ایسے بے شمار ہیرے ہمارے ہاتھوں میں بس تراش خراش کے منتظر ہیں انہیں چمکانا اور تراشنا حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ ان میں سے اکثر ہیرے ’’گڈری کے لعل‘‘ کی طرح غربت میں پرورش پا رہے ہیں اور حکومتی امداد و مدد کے منتظر ہیں جن پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔