بھارتی آرمی چیف کی پاکستان پر دراندازی کے الزامات کی بوچھاڑ اور ترجمان پاک فوج کا رسمی جواب …… کیا ہمیں بھی دنیا کو بھارتی مکروہ چہرہ نہیں دکھانا چاہیے؟

Jan 16, 2014

اداریہ

بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ نے پاکستان پر کنٹرول لائن کے پار دراندازوں کی مدد کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ہم ایل او سی کی خلاف ورزی میں کبھی پہل نہیں کرتے‘ پاکستان کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتا رہے گا تو بھارت بھی اسی انداز میں جواب دیگا۔ انکے بقول سیزفائر کی خلاف ورزی چھوٹی جنگ کے مترادف ہے۔ دو روز قبل نئی دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل بکرم نے کہا کہ پاکستان نے جنگ بندی معاہدے پر عمل نہ کیا تو ہم بھی اسکے پابند نہیں‘ کنٹرول لائن پر بھارتی فوج چوکس ہے اور ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینگے۔ بھارتی خبررساں ایجنسی کے مطابق بھارتی آرمی چیف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پاکستانی اور بھارتی فوج کے مابین فائرنگ کے تازہ واقعہ میں پاکستان کے دس فوجی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ بھارتی فوج نے دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان نے بھارتی آرمی چیف کی جانب سے پاکستان پر سیزفائر کی خلاف ورزی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے جوابی بیان میں باور کرایا کہ پاک فوج سیزفائر معاہدے کا اسکی روح کے عین مطابق احترام کرتی ہے جبکہ پاکستان بھارت ڈی جی ایم اوز کی ملاقات کے بعد ایل او سی پر صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کنٹرول لائن کے حوالے سے بھارتی الزامات اور اشتعال انگیز بیانات افسوسناک ہیں جن کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
بھارتی آرمی چیف جس روز باضابطہ طور پر پریس کانفرنس کرکے پاکستان پر دراندازی اور سیزفائر کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر رہے تھے‘ عین اسی روز بھارتی آرمی چیف کی پریس کانفرنس کے بعد بھارتی فوج نے پونچھ سیکٹر سے ملحقہ کنٹرول لائن پر پھر بلااشتعال فائرنگ کی اور جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سول آبادی اور پاکستان کی سرحدی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جبکہ پاک فوج نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے دشمن کی توپیں خاموش کرادیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر امن کی دھجیاں بکھیر دیں اور بٹل سیکٹر پر پون گھنٹے تک فائرنگ کی جس سے عوام میں شدید خوف و ہراس پیدا ہو گیا۔ اس صورتحال میں بھارتی آرمی چیف کی پریس کانفرنس سے پاکستان کیخلاف جارحیت کے ارتکاب کی بھارتی تیاریوں کا عندیہ ملتا ہے اور یقیناً یہ پریس کانفرنس بھارتی حکومت کی رضامندی اور آشیرباد سے ہی کی گئی ہو گی کیونکہ بھارت میں قائم سسٹم کے ماتحت کسی فوجی جرنیل کو دفاعی پالیسی سے متعلق ازخود پریس کانفرنس کرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی جبکہ اس پریس کانفرنس میں بھی بھارتی حکمت عملی کے عین مطابق پاکستان پر دراندازی کے الزامات کی بوچھاڑ کی گئی اور سیزفائر کی خلاف ورزی کو چھوٹی جنگ سے تعبیر کیا گیا۔ اصولی طور پر تو اس پریس کانفرنس کا جواب ہماری جانب سے بھی کم از کم آرمی چیف کی سطح پر ہی دیا جانا چاہیے تھا مگر بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی اور تجارت کیلئے فکرمند ہمارے حکمرانوں کو ملک کی دفاعی حکمت عملی سے متعلق معاملات سے کوئی سروکار ہی نظر نہیں آتا۔ بھارتی آرمی چیف کے بقول اگر بھارت کی جوابی کارروائی میں کنٹرول لائن پر پاکستان کے دس فوجی شہید ہوئے ہیں تو یہ واقعہ ایسا نہیں کہ اس پر محض رسمی بیان بازی پر اکتفاء کرکے چپ سادھ لی جائے جبکہ پاک فوج کا جاری کردہ رسمی بیان بھی اتنا نرم اور کمزور ہے کہ اس میں بھارت سے باضابطہ احتجاج کا کوئی پہلو ہی نظر نہیں آتا۔
دسمبر 2012ء میں جب اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار کی تیاریاں مکمل کر چکی تھی‘ بھارتی فوج کی جانب سے مظفرآباد سیکٹر میں کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر بلااشتعال فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں پاک فوج کے دو جوان زخمی ہوئے۔ اس پر پاک فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کیا جس کے بعد بھارت نے پوری دنیا میں واویلا کرکے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ پاکستان کی افواج نے پانچ بھارتی فوجیوں کے سر قلم کرکے ہمیں بھجوائے ہیں۔ اس پروپیگنڈہ کی بنیاد پر ہی بھارت کی حکومتی اور عسکری قیادتوں نے پاکستان کیخلاف باقاعدہ جنگ کا ماحول پیدا کرکے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی پاکستان کا پہلے سے طے شدہ دورہ پوری رعونت کے ساتھ منسوخ کردیا اور پھر تسلسل کے ساتھ سیزفائر کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیاجس پر پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی انتہاء تک جا پہنچی۔ بھارت کی جانب سے یہ سارا ڈرامہ اس لئے رچایا گیا کہ اس پر مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کیخلاف عالمی دبائو بڑھ رہا تھا اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وردیوں کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جاری کردہ رپورٹ کی بنیاد پر بھارت پر یورپی ممالک کے ساتھ تجارت پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی پاکستان بھارت مذاکرات کے حوالے سے عالمی دبائو میں اضافہ ہو رہا تھا۔ بھارت کو چونکہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کے معاملہ میں کشمیر کا تذکرہ بھی گوارا نہیں ہوتا اور اسی تناظر میں آج تک کسی بھی سطح پر ہونیوالے مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے جبکہ ہمیشہ بھارت کی جانب سے مذاکرات کو سبوتاژ کیا جاتا رہا ہے‘ چنانچہ بھارت نے کشمیر پر عالمی دبائو کی شدت کم کرنے کیلئے پاکستان کی جانب سے ’’ایم ایف این‘‘ کا سٹیٹس ضائع کرنا گوارا کرلیا مگر پاکستان کے ساتھ جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی سرشت نہ چھوڑی۔
یہ حقیقت تو اب پوری دنیا پر آشکار ہو چکی ہے کہ بھارت نے گزشتہ 64 سال سے زائد عرصہ سے وادی کشمیر کے ایک بڑے حصے پر اپنی 7 لاکھ افواج کے ذریعے تسلط جمایا ہوا ہے جس کا جواز نکالنے کیلئے اس نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ بھی دے دیا ہے اور اسی بنیاد پر وہ مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے جسے کشمیری عوام نے آج تک تسلیم نہیں کیا اور قربانیوں کی بے مثال تاریخ رقم کرتے ہوئے انہوں نے اپنی جدوجہد آزادی جاری رکھی ہوئی ہے۔ آج بھارتی آرمی چیف داعی ہیں کہ بھارت نے سیزفائر کی خلاف ورزی میں کبھی پہل نہیں کی جبکہ جموں و کشمیر کی انسانی حقوق کی تنظیم ’’ہیومن رائٹس موومنٹ‘‘ نے گزشتہ ماہ جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں جہاں نہتے اور بے گناہ کشمیری عوام پر بھارتی افواج کے مظالم کی تصویر دنیا کو دکھائی ہے‘ وہیں یہ بھی باور کرایا ہے کہ بھارت نے گزشتہ دو سال کے دوران عالمی قوانین کو تہس نہس کرتے ہوئے 140 مرتبہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس دوران بھارت نے پاکستان کی جانب تین ہزار سے زائد مارٹر گولے فائر کئے جس کے نتیجہ میں 60 افراد شہید ہوئے۔ اس رپورٹ میں ہی مقبوضہ کشمیر میں 5900 گمنام قبروں اور دس ہزار سے زائد افراد کے غائب کئے جانے کی تصدیق کی گئی ہے اور یہ دل فگار انکشاف کیا گیا ہے کہ 1947ء سے 2013ء تک بھارتی افواج نے لاٹھی‘ گولی اور ظلم و تشدد کے دیگر حربے اختیار کرکے پانچ لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری ان بھارتی مظالم کی بنیاد پر ہی دہلی کی حکمران عام آدمی پارٹی کے ایک سرکردہ لیڈر پرشانت بھوشن نے اس معاملہ میں ریفرنڈم کرانے کی تجویز پیش کی کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کو موجود رہنا چاہیے یا نہیں‘ انکے اس بیان پر بھارتی انتہاء پسند تنظیموں اور لیڈران نے نہ صرف احتجاجی چیخ و پکار کا سلسلہ شروع کیا بلکہ عام آدمی پارٹی کے دفتر میں توڑپھوڑ کرتے ہوئے پرشانت بھوشن کی بھی دھنائی کرڈالی جس پر عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ دہلی اروند کجریوال نے پیشکش کی کہ اگر انکی جان کے عوض کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو وہ اس کیلئے بھی تیار ہیں۔ یقیناً اس فضا میں بھارتی حکومت اور اپوزیشن لیڈران نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت پر عالمی دبائو بڑھتا ہوا محسوس کیا ہو گا جس کے اثرات زائل کرنے کیلئے ہی بھارتی آرمی چیف سے حقائق کے منافی پریس کانفرنس کرائی گئی اور پاکستان پر دراندازی کے الزامات کی ایک بار پھر بوچھاڑ کی گئی۔ اس صورتحال میں ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کے سوچنے کی بات ہے کہ ایسے مکار روائتی دشمن کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا اور یو این قراردادوں کے مطابق کشمیر ایشو طے کرائے بغیر اسکے ساتھ تجارت کے راستے کھولنا ہماری سالمیت کے تقاضوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے یا نہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ اس ماحول میں بھی ہمارے وزیر تجارت خرم دستگیر بھارت کے ساتھ تجارتی مذاکرات کی خاطر دہلی جا پہنچے ہیں جبکہ پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر باور کرا رہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت کیلئے پاکستانیوں کو پولیو ویکسی نیشن کا ثبوت دینا ہو گا۔ اگر بھارت ہم سے ہر معاملے میں ثبوت مانگتا اور خود دراندازی کرکے اسکے الزامات بھی پاکستان پر دھرتا ہے تو ہماری حکومتی اور عسکری قیادتوں کو بھی دفاع وطن کے تمام تقاضے نبھانے چاہئیں‘ ورنہ تو بھارت ہمیں نرم چارہ سمجھ کر کھانے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔

مزیدخبریں