’’علم اٹھایا ہے علم کا ہاتھوں میں جس نے… کیا آپ کسی ایسی شخصیت کو جانتے ہیں جس نے تعلیم پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہو؟‘‘ یہ الفاظ نوائے وقت کے سرورق پر شائع ہونیوالے ایک اشتہار کے ہیں۔ بے شک کئی زندہ شحصیات ہوں گی جو یہ علم اٹھائے ہوئے ہوں، مگر میں تو ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جن کی ز ندگی میں، میں ان سے کبھی نہ ملا تھا مگر ان کے جسد خاکی کا منظر انکے مرنے کے دو سال بعد اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کوئی بیس بائیس برس پہلے میرے ایک کولیگ پروفیسر سید مختار شاہ ٹریفک حادثے میں جاںبحق ہو گئے تھے۔ انکی نماز جنازہ کیلئے ہم چنیوٹ کے قریب انکے آبائی گاؤں پہنچے، قبرستان گاوں کے ساتھ ہی تھا۔ ابھی نماز جنازہ میں کچھ دیر باقی تھی، ہم قبرستان میں جنڈ کے ایک گھنے اور قدیم درخت کے سائے میں کھڑے ہو گئے۔ قریب ہی مرحوم کی قبر کی تیاری کی جا رہی تھی۔ اچانک مزدور کی غلطی کی وجہ سے ساتھ والی قبر کی ڈاٹ اوپر سے گر کر ایک طرف آ پڑی اور قبر اوپر سے کھل گئی۔ یہ قبر پروفیسر سید مختار شاہ مرحوم کے والد محترم کی تھی، جن کا انتقال دو سال پہلے ہو چکا تھا۔ لوگ قبر پر آمڈ پڑے۔ میں بھی آگے ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مرحوم کام کفن بھی میلا نہیں ہوا تھا۔ جسد خاکی اس طرح پڑا ہوا تھا کہ ابھی دفنایا ہو۔ اکثر لوگوں کی زبان پر اکی ہی فقرہ تھا ’’سید بادشاہ‘‘ تھے۔ اس لئے ان کا جسد خاکی دو سال بعد بھی قبر میں صحیح سلامت ہے۔ میں حسب و نسب کے حوالے سے اس طرح کی ضعیف الاعتقادی کا قائل نہیں تھا اور نہ ہوں۔ اس لئے میں نے صرف سید بادشاہ ہونے کی توجیح کو قبول نہ کیا۔ میرے ساتھ ہی کیمسٹری کے پروفیسر کھڑے تھے جو سوشلسٹ خیالات کے مالک اور ہر چیز کو سائنس اور عقل پر پرکھنے کے عادی تھے۔ میں نے ان سے سائنسی طور پر دو سال بعد بھی قبر میں جسد خاکی کے اس طرح تروتازہ رہنے کی توجیح پوچھی تو جو خود بھی یہ منظر دیکھ کر حیرانگی میں تھے، بتانے لگے کہ طبی اعتبار سے قبر میں ہر مردے کا پیٹ چالیس دن کے اندر اندر پھٹ جاتا ہے اور اسی وجہ سے کیڑے مکوڑے اس جسم کو کھانے لگتے ہیں۔ اسکے بعد میں نے گاؤں کے بزرگوں سے مرحوم شاہ جی کے معمولات کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اس گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوسبت نہیں تھا۔ شاہ جی پورے پچاس برس تک گاؤں کی بچیوں کو اپنے گھر میں پرائمری تک مفت تعلیم دیتے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ شاہ جی کی قبر اسلئے روشن ہے کہ انہوں نے گاؤں کی بچیوں کو جہالت کے اندھیرے سے نکالا تھا۔
یہ منظر دیکھنے کے بعد میرا ایمان پختہ ہو گای کہ اگر ایک چھوٹے سے گاؤں میں علم کا علم اٹھانے والے شاہ جی کو قبر میں آسودگی مل سکتی ہے تو پھر سر سید احمد خاں اور انکے پیروکاروں جنہوں نے برصغیر کے کونے کونے میں یہ علم ہاتھوں میں لیا کی قبروں کے مناظر بھی یہی ہونگے۔ سر سید نے تو یہ علم اس وقت اٹھایا جب پورا ہندوستان غلامی میں جکڑ چکا تھا اور مسلمانوں کی کشتی بیچ مندھار میں ڈوب رہی تھی۔ انکی تعلیمی تحریک کے نتیجے میں پورے ہندوستان میں مسلمان انجمنیں اور تعلیمی ادارے قائم ہونا شروع ہوئے۔ لاہور میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ، مدرسۃ البنات جیسے اداروں کا اجرا کرنیوالی انجن حمایت اسلام کے بانیان منشی چراغ دین، قاضی حمید الدین، غلام اللہ قصوری، منشی پیر بخش، اسلامیہ کالج پشاور کے بانیان صاحبزادہ عبدالقیوم، حاجی صاحب ترنگ زئی، میاں عبدالرحیم شاہ کاکا خیل، میاں کریم بخش سیٹھی، اسلامیہ ہائی سکول مری روڈ راولپنڈی قائم کرنیوالے سیٹھ ماموں جی، 1876ء میں قائم ہونیوالی انجمن اسلامیہ بمبئی کے ذمہ داران جن میں قائداعظمؒ بھی شامل تھے، 1900ء میں تشکیل پانے والی انجمن اسلامیہ جموں کے قائم کردہ سکول کے بانی راجا فرمان علی، سردار محمد اکبر خاں، شیخ عبدالعزیز، 1909ء میں قائم ہونے والی انجمن اسلامیہ کوہاٹ کے سکول کے سرپرست مولانا احمد گل، شیخ عبدالرحمن، شاہ جی وکیل، 1931ء میں انجمن اصلاح الخواتین میرٹھ کی طرف سے حمیدیہ سکول جاری کرنیوالی خواتین بیگم نواب اسمٰعیل خاں، لیڈی عبداللہ ہارون، ابوالکلام آزاد کی بہن آبرو بیگم، 1870ء میں قائم ہونے والی انجمن قصور کے سکول کے بانی غلام نبی، منشی قادر بخش اور انجمن تصرت الاسلام سری نگر کے سرپرست میر واعظ مولوی غلام رسول شاہ کی قبریں بھی روشن اور منور ہوں گی کیونکہ انکے اٹھائے ہوئے علم کے علم کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں کو صرف سماجی و سیاسی شعور ہی نہ ملا بلکہ انکے قائم کردہ تعلیمی ادارے آئندہ چل کر آزادی کی تحریک کا مرکز بھی بنے اور ان کے فارغ التحصیل اور طلبا اس تحریک کا ہراول دستہ بھی بنے جن میں حمید نظامی مرحوم جیسے نڈر اور بے باک جوان بھی شامل تھے۔ دوسری طرف آج کے اہل ثروت ہیں، جو اشراف کی سی زندگی بسر کرتے ہیں اور تعلیم کو خریدتے اور فروخت کرتے ہیں۔ اگرچہ بعض نیک دل لوگ آج بھی اس کارخیر میں آگے آگے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ تعلیم کاروبار بن گئی، کوٹھیاں اور بنگلے پرآسائش تعلیمی اداروں میں تبدیل ہو رہے ہیں، علم پھیلانے کے لئے نہیں دولت کمانے کے لئے! ان پڑھ دولت مند سکولوں اور کالجوں کے مالک اور اہل دانش و علم ان کے نوکر بنے بیٹھے ہیں، اس لئے تو استاد کو استاد نہیں رہنے دیا گیا، اسے نوکر بنا کر رکھ دیا گیا ہے، تعلیم خانوں میں بٹ گئی ہے اور جتنے خانوں میں تعلیم بٹی ہے اتنے خانوں میں قوم بٹی ہوئی ہے، دینی مدرسہ مسلکی مدرسے بن گئے ہیں، دین تو سب کو جوڑتا ہے، تقسیم نہیں کرتا۔