کراچی (کرائم رپورٹر+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ+ نوائے وقت نیوز) کراچی میں پولیس افسروں کے تبادلوں کی اطلاعات پر ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر نے شدید برہمی اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ٹارگٹڈ آپریشن روکنے کی دھمکی دیدی، سندھ حکومت نے تبادلوں پر تحفظات دور کر دئیے۔سندھ حکومت نے رات گئے راﺅ انوار احمد کی ایس ایس پی ملیر تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ ڈی جی رینجرز کا کہنا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کو ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران برقرار رکھا جائے ورنہ کراچی کی صورتحال کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ڈی جی رینجرز نے بدھ کو وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ سے ملاقات کی، جس میں کراچی سمیت سندھ میں امن و امان کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا، قائم علی شاہ نے کہا کہ تقرریوں تبادلوں کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ ڈی جی رینجرز کی مشاورت سے ہو گا۔ کراچی میں آپریشن کی کمانڈ ڈی جی رینجرز کے پاس ہے اس لئے کسی بھی پولیس افسر کے تبادلے سے پہلے ان سے مشاورت کی جائیگی، رینجرز امن قائم کرنے کیلئے اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے ڈی آئی جی ساو¿تھ عبدالخالق شیخ کو ایس این جی ڈی رپورٹ کرنے، ڈی آئی جی ایسٹ منیر شیخ کی جگہ آصف اعجاز شیخ کو نیا ڈی آئی جی تعینات کرنے جبکہ ڈی آئی جی سی آئی اے سلطان خواجہ کا بھی تبادلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اسی طرح ایس پی راو¿ انوار احمد کو ایس ایس پی ملیر اور ایس ایس پی نیاز کھوسو کو ایس ایس پی کورنگی تعینات کرنے جبکہ شہید چوہدری اسلم کی جگہ عرفان بہادر یا فاروق اعوان کو ایس ایس پی سی آئی ڈی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس پر ڈی جی رینجرز کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں کراچی آپریشن کے مستقبل پر غور کیا گیا۔ اس موقع پر میجر جنرل رضوان اختر کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ وسیع تر مفاد میں پولیس کے اعلیٰ افسران کے تبادلے نہ کرے۔ ٹارگٹڈ آپریشن سے قبل ایک 3 رکنی کمیٹی تشکیل پائی تھی جس میں سی سی پی او کراچی، آئی جی سندھ اور میں خود شامل تھا اور یہ طے پایا تھا کہ پولیس میں اہم تبادلے اور تقرریاں مشاورت سے کی جائیں گی تاہم سندھ حکومت کمیٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے پولیس کے اعلیٰ افسران کے تبادلے کرنا چاہتی ہے جس سے کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن متاثر ہوسکتا ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آپریشن روکنے پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی معاملہ سلجھانے کراچی پہنچ گئے تھے۔ آن لائن کے مطابق تبادلوں پر اظہار تشویش کرتے ہوئے رینجرز نے وزیراعظم ہا¶س سے بھی رابطہ کیا تھا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے ملاقات کی۔ جس میں اقتصادی امور سمیت اہمیت کے حامل دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گورنر سندھ کو یقین دلایا کہ وفاق کے تعاون سے جاری تمام منصوبوں پر فنڈز جاری کر دیئے گئے ہیں جبکہ وفاقی حکومت صوبے اور شہر میں ترقیاتی کاموں کےلئے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے اس ضمن میں صوبائی حکومت سے مل کر دیگر نئے منصوبوں پر بھی بات چیت جاری ہے۔ علاوہ ازیں کراچی چیمبر سے خطاب میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن نہیں رکے گا اور نہ ہی اس کے دائرہ کار میں کوئی کمی آئے گی ۔کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنائیں گے ۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا کوئی گناہ نہیں ہے ۔اگر ہم آئی ایم ایف سے قرضے لے کر ری شیڈولنگ نہ کرتے تو سال 2014ءتک ڈیفالٹ ہو جاتے، ٹیکس دھندگان کی ڈائریکٹری پبلک کی جائے گی جس میں نام ، این ٹی این نمبر کے علاوہ دیگر تفصیلات شائع نہیں کی جارہی ہیں ۔توانائی، معیشت اور امن عامہ موجودہ حکومت کی سب سے اہم ترجیحات ہیں ۔گردشی قرضوں کی واپسی سے نیشنل گرڈ میں 1700میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا ہے۔ 1997ءمیں سندھ کے حالات خراب ہونے اور حکیم سعید کے قتل کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکومت جانے کی پرواہ کئے بغیر ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھرپور آپریشن شروع کیا تھا اور اب بھی حالات کو دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے حکومت سندھ کو اوپن چیک دیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کراچی آپریشن کو محدود یا ختم کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔آپریشن میں چاہے ایک سال لگے یا دو سال آپریشن ہوگا اور کامیاب ہوگا۔
رینجرز/ کراچی