مغرب کے دوہرے معیار

آج سے چند سال قبل برطانیہ کے ہائوس آف لارڈز کی ایک کمیٹی روم میں Defamation کے موضوع پر ایک مناظرہ ہوا۔ اس تقریب کے روح رواں جناب لارڈ نذیر احمد تھے۔ کمیٹی روم میں جہاں تقریباً 40 کرسیوں کا اہتمام تھا وہاں 100 لوگ موجود تھے۔ اس میں ہر طبقہ فکر کے برطانیہ میں موجود مسلمان علماء کے علاوہ، برطانوی وزیر سعیدہ وارثی اور خاصی تعداد میں انگریز ارکان ہائوس آف کامنز اور ہائوس آف لارڈز موجود تھے۔ اس تقریب میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی چمپیئن لارڈ لیسٹر کو خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان سے اس وقت کے گورنر لطیف کھوسہ اور راقم کو مدعو کیا گیا تھا۔ مسلمان مقررین نے نبی کریمؐ کی شان کیخلاف گستاخانہ کالم لکھنے، خاکے تراشنے اور فلمیں بنانے کی سخت مذمت کی اور ایسی حرکات کو مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے پر حملہ قرار دیا۔ انگریز مقررین کا دفاع یہ تھا کہ مغرب میں اظہار خیال پر مکمل آزادی کے قوانین کی روشنی میں وہ ان حرکات کو خراب سمجھتے ہوئے بھی روکنے سے قاصر ہیں۔ راقم نے اس موقع پر اپنی مختصر معروضات میں عرض کیا کہ ہم مسلمانوں کا مغربی دنیا کے عوام سے کوئی گلہ نہیں۔ عقائد مختلف ہونے کے باوجود ہم مغربی ممالک کی تعلیم، سائنس اور صنعتی ترقی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان اداروں سے مستفیض ہونا چاہتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں ہمارے کئی ملین پاکستانیوں سمیت مسلمان بستے ہیں جن کو ان حکومتوں نے ملازمتیں دی ہوئی ہیں اور ایسے جائیدادیں خریدنے اور اظہار خیال کے حقوق دیئے ہوئے ہیں جو ان کو بعض مسلمان ممالک میں بھی میسر نہیں۔ ہمارا گلہ صرف ان چند شرارتی عناصر سے ہے جو تہذیبوں کو آپس میں لڑانے کی مسلسل سازش کر رہے ہیں یہ وہ انتہا پسند اور تنگ نظر مٹھی بھر لوگ ہیں جو دین اسلام کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ اس دین کی آفاقی شکل اور تیز پھیلائو سے خائف ہیں۔ انکو یہ پتہ ہے کہ ہم سب حضرت ابراہیمؑ کو ماننے والے ہیں۔ حضرت عیسیؑ اور حضرت موسیؑ کو سب مسلمان برحق اللہ کے پیغمبر مانتے ہیں لیکن اسلام دشمن سوچ نے انکو بائولا کیا ہوا ہے۔ انکے دل اور دماغ مفلوج ہو چکے ہیں۔
 میں نے عرض کیا کہ مجھے یہ پتہ ہے کہ 1689ء میں پاس ہونیوالا بل آف رائٹس انگریزوں کو اظہارخیال کی آزادی دیتا ہے۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ 100 سال بعد 1789ء کے فرانسیسی انقلاب کے وقت انگریزوں نے ایک اور بھی آزادی اظہار کا بل پاس کیا تھا جسکے آرٹیکل 11 کے مطابق ہر شہری بول، لکھ اور پرنٹ کر سکتا ہے لیکن اس آزادی کا کسی بھی قانون کے برعکس غلط استعمال نہیں کر سکتا۔ اقوام متحدہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل جان کی مون نے بھی کہا:
 ’’Freedom of expression used for common purpose in protected, but this freedom when used to humiliate other's values and beliefs is not protected‘‘
یعنی اس اظہار خیال کی آزادی ہے جو اجتماعی فلاح کیلئے ہو لیکن وہ آزادی اظہار جس سے دوسروں کے لطیف جذبات مجروح ہوں یا انکے اقدار اور ایمان کو ٹھیس پہنچے ان کو یہ قانون کوئی دفاع مہیا نہیں کرتا۔ اسکے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 19بھی آزادی اظہار کے جائز استعمال کی تلقین کرتا ہے۔ راقم نے عرض کیا کہ مغربی دنیا کے بنائے ہوئے موجودہ قوانین میں اگر کوئی ابہام ہے تو اسکو دور کرنا بھی مغربی قانون ساز اداروں ہی کا کام ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب مغربی قانون ساز ادارے بھی اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں یہ محسوس کریں کہ کسی بھی دوسرے شخص کے عقیدے اقدار اور ایمان پر حملہ کرنے کی کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا۔ مغربی دانشور جب غیر مسلموں کے انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ کیوں بھول جاتے کہ مسلمان بھی انسان ہیں انکے بھی انسانی حقوق ہیں۔ ایسے قوانین کیوں بنائے جائیں جو دنیا میں فساد پیدا کریں جس سے نوبت قتل و غارت تک پہنچ جائے اور نفرتوں میں اضافہ ہو۔ فرانس کے اندر حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا اس کو مسلمان بالکل اچھا نہیں سمجھتے چونکہ ہمارا دین کسی کی بھی غیر قانونی طور پر جان لینے کی مخالفت کرتا ہے۔ ہر شخص کا مقدمہ عدالت میں مروجہ قوانین کے تحت چلنا چاہئیے۔ سزائیں ملکی قوانین کے تحت ہونی چاہئیں چونکہ افراد کے ہاتھوں میں یہ فیصلے چھوڑنے سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں لیکن پیرس میں کئی ملین لوگوں اور چالیس ممالک کے سرکردہ رہنمائوں کے اجتماع کو میں ضرور داد دیتا اگر اس قسم کا احتجاج اس وقت بھی کیا جاتا جب امریکی سینٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی گوانتانا موبے اور بگرام کی جیلوں میں غیر قانونی قید میں مسلمانوں کیخلاف ٹارچر اور ظلم و ستم کی وہ رقت آمیز داستانیں سامنے لائی جن کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ قیدیوں کو پابند سلاسل کر کے ان پر کتے چھوڑے گئے غوطے دیئے گئے ناک کے اندر تاریں ڈالی گئیں اور تشدد سے ہلاک کیا گیا۔ کیا انسانی حقوق یورپین کے حقوق کا دوسرا نام ہے؟ کیا اللہ کی واحدانیت پر یقین رکھنے والا اور نبی کریمؐ کو آخری نبی ماننے والا کلمہ گو مسلمان انسان نہیں ؟کیا اسکے حقوق جانوروں سے بھی پیچھے ہیں؟ مغرب میں تو اگر کتے سے بھی زیادتی ہو جائے تو عدالت میں مقدمہ چل سکتا ہے کیا مہذب معاشروں میں جانوروں سے بھی بے رحمی کا سوچا جا سکتا ہے۔
قارئین اس میں شک نہیں کہ مغربی دنیا کے اکثر لوگ بہت اچھے ہیں۔ صرف مغرب میں موجود اسلام دشمن عناصر اور لابیاں ان کو گمراہ کرتے ہیں اور مغربی حکومتیں خاموش، تماشائی بن کر اسلام کیخلاف نفرتوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ کسی نے خوب کہا کہ  :
Rules are for fools, Wise people make and modify them.
 وقت آ گیا ہے کہ مغربی دانشور اور قانون ساز اسمبلیوں میں بیٹھے بڑے بڑے قانون دان اور محقق اب اظہار خیال کی آزادی کے قوانین میں ایسی ترمیم ضرور کریں جس سے دوسرے انسان کے جذبات مجروح کرنے والے Fools کو فوراً قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے ورنہ موجودہ قوائد کی آڑ میں سلمان رشدی جیسے شیطان ہر جگہ اپنی اظہار خیال کی آزادی کی ماچس کی تیلی کا استعمال کر کے آگ لگاتے رہیں گے اور جانیں تلف ہوتی رہیں گی جس میں پیرس میں ڈیوٹی دینے والے بے گناہ پولیس آفیسرز بھی لقمہ اجل بنیں گے ۔مسلمان بھائیوں کیلئے بھی صبر اور برداشت کی تلقین ضروری ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے ہمیشہ اعتدال پسندی اور میانہ روی کا درس دیا آپؐ کا فرمان ہے ’’ آپ سے جو کٹے اس سے جڑو، آپ سے جو زیادتی کرے اسے معاف کردو اور آپ کو جو محروم کرے اس کو دو، آپکی خامشی غورو فکر کی خامشی ہو اور آپ کی نگاہ عبرت کی نگاہ ہو۔‘‘
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مغرب کے آزادی اظہار سے متعلق دوہرے معیار ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے جو تقریباً 6 ملین یہودیوں کو گیس چیمبرز میں جلا ڈالا اور جسے ہولو کاسٹ کہا جاتا ہے اسکے متعلق مغربی پریس میں کچھ لکھنا یا بولنا قانوناً جرم ہے۔ برطانیہ کے اخبار سنڈے ٹائم نے حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا ایک ایسا کارٹون چھاپا جس میں اسرائیلی وزیر اعظم کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون میں رنگے دکھائے گئے، اس پر اسرائیل نے احتجاج کیا تو سنڈے ٹائم اخبار نے معافی مانگ لی۔ اسی طرح امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو ہاتھ میں گائے پکڑے خلا میں جاتے دکھایا تو اس پر ہندوستان معترض ہوا جس پر نیو یارک ٹائمز نے بھی معافی مانگ لی لیکن ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے کارٹونسٹ کے حق میں نہ صرف ملین مارچز ہوئے بلکہ دوبارہ وہ خاکے شائع کئے گئے اس لئے اس سارے ماجرے کو مسلمانوں کیخلاف تعصب نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟

ای پیپر دی نیشن