13 جنوری کو بھارتی حکومت نے اپنے صُوبہ اُتّر پردیش کے آگرہ شہر میں مُغل بادشاہ شاہ جہاںکے اپنی تیسری بیوی ارجمند بانو المعرُوف ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کردہ ”تاج محل“ کے قریب گائے کے گوبر کے اُپلے (پاتھِیاں/ تھاپِیاں) جلانے پر پابندی لگا دی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ”تاج محل کے قریب گائے کے اُپلے ¾ جلانے سے تاج محل کی تعمیر میں استعمال ہونے والے ۔”سفید رنگ کے سنگِ مرمر“ کی رنگت پِیلی پڑتی جارہی ہے۔“ بھارتی حکومت کو تاج محل کی پِیلی رنگت کا احساس 7 سال 7 ماہ اور 13 دِن کے بعد ہُوا حالانکہ مئی 2007 ءمیں ہی بھارت کی لوک سبھا میں یہ رپورٹ پیش کر دی گئی تھی کہ ”آگرہ میں بڑھتی ہُوئی فضائی آلودگی کے باعث محبت کی اِس عظیم یادگار کی رنگت پِیلی پڑ گئی ہے اور اس کی خوبصورتی کو بچانے کے لئے ¾ سفید اور شفاف سنگِ مرمر کو صاف کرایا جائے۔“ 1983ءمیں اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم سائنس اور کلچر ”UNESCO“ نے تاج محل کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دِیا تھا اور 2007ءمیں (اُس کی رنگت پِیلی ہونے کے باوجود اُسے) اُسے دُنیا کے سات عجوبوں میں سے ایک عجوبہ قرار دِیا تھا۔ تاج محل پر ادیبوں اور شاعروں نے بہت کچھ لِکھا۔ ترقی پسند شاعر جناب ساحر لدھیانوی نے اپنی نظم ”تاج محل“ میں شاہ جہاں پر تنقید کرتے ہُوئے کہا تھا کہ
اِک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غرِیبوں کی مُحبّت کا اُڑایا ہے مذاق
حقیقت میں جناب ساحر لدھیانوی نے اپنے ”بھول پن“ کا ثبوت دِیا۔ شہنشاہ ¾ نواب ¾ جاگیر دار اور سرمایہ دار جِن کے پاس دولت کے انبار ہوں وہ بھلا غرِیبوں کی محبت کا مذاق کیوں نہیں اُڑائےں گے؟ ایک فلمی شاعر نے تاج محل کے شفّاف اور سفید سنگِ مرمر کی خوبصورتی سے مُتاثر ہو کر اپنی محبوبہ کے بدن کو اِس شعر کے خوبصورت ڈھانچے میں ڈھالتے ہُوئے کہا کہ
سنگِ مرمر سے تراشا ہُوا شفّاف بدن
دیکھنے والے اِسے تاج محل کہتے ہیں
انگریزی کے ایک شاعر ”Smithson “ نے تاج محل پر کمال کی نظم لِکھی اِس نظم کا ایک شعر ہے:
"The Shight Of This Mansion Creates Sorrowing Sighs
And The Sun And The Moon Shed Tears From Their Eyes"
یعنی ”اِس عظیم عمارت کا منظر غمناک آہوں کا باعث بنتا ہے اور (اسے دیکھ کر) سُورج اور چاند بھی اپنی آنکھوں سے آنسو بہانے لگتے ہیں۔“ اپنی والدہ¿ مرحومہ کی یاد میں کہی گئی نظم میں علّامہ اقبال کا آخری دُعائیہ مِصرع تھا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
پھانسی پانے سے پہلے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنی نثری شاعری میں کہا تھا کہ ”مَیں اگر مر گیا تو ہمالہ (پہاڑ) روئے گا“ لیکن ہمالہ تو نہیں رویا البتہ بہت سے جیالے ضرور روئے تھے اور جِن جیالوں کے لئے ”اِنقلاب“ نہیں آیا وہ ابھی تک رو رہے ہیں۔ جنابِ بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی تصوّراتی شاعری میں کہا تھا کہ ”مجھے چاند میں پاپا دکھائی دیتے ہیں۔“ شاہ جہاں کے والد نورالدِ ّین جہانگیر اور دادا جلال الدّ ِین اکبر نے لاہور میں بہت عرصہ گزارا اور لاہور میں بہت سی یاد گار عمارتیں تعمیر کرائیں۔ مَیں نے اور میرے کئی دوستوں نے لاہور میں ساری مُغلیائی عمارتیں اپنے مرحوم دوست مِرزا شُجاع اُلدّ ِین بیگ امرتسری (سابق پرنسپل اِنفارمیشن آفیسر حکومت پاکستان پروفیسر مِرزا محمد سلیم بیگ کے والد) کی قیادت اور مہمان نوازی میں دیکھیں۔ تحریکِ پاکستان کے دوران 1947ءمیں امرتسر میں مِرزا شجاع الدّ ِین بیگ کا آدھے سے زیادہ خاندان شہید ہو گیا تھا۔ بیگ صاحب کو اپنے دوستوں کو پِکنک پر لے جانے اور مُغل بادشاہوں کے دَور میں تعمیرکی گئیں عمارتیں دکھانے کا بے حد شوق تھا۔
آگرہ کا تاج محل مَیں نے جولائی 2000ءمیں بھارتی وزیرِاعظم شِری اَٹل بہاری واجپائی اور صدرجنرل پرویز مشرف کی ”آگرہ سربراہی کانفرنس“ کے موقع پر پاکستانی مِیڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے دیکھا۔ وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر چودھری اشفاق احمد گوندل نے مختلف گروپس میں صحافیوں کو تاج محل دکھانے کا بندوبست کِیا تھا۔ ہمارے گروپ میں میرے علاوہ مِیر جمیل اُلرحمن (مرحوم) ، جناب اے بی ایس جعفری (مرحوم) جناب ارشاد احمد حقانی ( مرحوم) ، سیّد ضمیر نفیس اور پی ایف یو جے کے صدر جناب محمد افضل بٹ شامل تھے۔ رام لعل ”Guide“ نے ہمیں گُھما پھرا کر ”جیومیٹری کے حساب سے“ تعمیر کئے گئے تاج محل کا کونا کونا دکھایا۔ اُن دِنوں تاج محل کی عمارت کی رنگت پِیلی نہیں ہوئی تھی صاف اور شفّاف سفید رنگ کی تھی۔
جناب مجید نظامی سے کئی حکمرانوں نے بھارت کے دَورے پر ساتھ چلنے کی درخواست کی لیکن مرحوم نے ہر بار کہا کہ ”مَیں جب بھی بھارت گیا تو پاک فوج کے کسی ٹینک پر بیٹھ کر جاﺅں گا۔“ وزیراعظم کی حیثیت سے میاں نواز شریف نے کئی بار جنابِ نظامی کو پاکستان کی صدارت کی پیشکش کی تو مرحوم نے کہا ”میاں صاحب! تُسِیں میری صدارت دا بھار نئیں چُک سکو گے۔ رہن دیو!“ وزیرِاعظم میاں نواز شریف کے اِس دَور میں ہمارے ”سُخن ور صدر“ جناب ممنون حسین کی صدارت بہت ہلکی پُھلکی ہے۔ ”پنج پُھلّاں رانی“ کی طرح جناب ممنون حسین کی پیدائش آگرہ کی ہے۔ انہوں نے یقیناً تاج محل کو صاف شفّاف رنگت میں ہی دیکھا ہوگا اور شاید اُس پر کوئی نظم بھی لِکھی ہو۔
میری جنابِ صدر سے درخواست ہے کہ وہ اُن کے شہر آگرہ میں اِیستادہ ”تاج محل“ کا پِیلا پَن دُور کرنے کے لئے بھارتی حکومت کی کوشش پر وزیرِاعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کریں۔ یہ بات حیران کُن ہے کہ ہِندُو لوگ گائے کو تو ”گﺅ ماتا“ کہتے ہیں اور وہ ”ماتا جی“ کے گوبر سے اپنے چُولہے، چوکے پاک کرتے ہیں۔ بھارت کے ایک سابق وزیرِاعظم شِری مُرار جی ڈِیسائی کے بارے میں یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ موصُوف ”گﺅ ماتا“ کا پیشاب بھی پیتے تھے“ ممکن ہے کچھ دوسرے نیتا بھی پیتے ہوں؟“ کوئی ہِندُو نیتا یا پنڈت ”گﺅ ماتا“ کا گوبر بھی کھاتا ہے یا نہیں؟ ”مَیں نہیں جانتا مَیں نہیں مانتا۔“
”ہِندُوﺅں کے باپُو“ اور کانگریسی مولویوں کے مُرشد ¾ شِری موہن داس کرم چند گاندھی بھارت کو بھی ۔”بھارت ماتا“۔ کہتے تھے اور اُن کا اعلان تھا کہ ۔”مَیں بھارت ماتا کے دو ٹکڑے نہیں ہونے دُوں گا“۔ اگر گاندھی جی آج دَور میں زِندہ ہوتے تو ¾ تاج محل کے قریب گﺅ ماتا کے گوبر کے اُپلے جلانے پر پابندی پر ۔”ستیہ گرہ“۔ نہ کرتے؟۔ بھارت میں داراُلعلوم دیوبند کی طرف سے کئی سال پہلے ہی فتویٰ آ چکا ہے کہ۔”ہِندُوﺅں کے ساتھ ہم آہنگی کے لئے بھارتی مسلمان گائے کی قُربانی نہ کریں“۔ دِلچسپ بات یہ کہ۔ 13 جنوری کو ہی بھارتی صُوبہ پنجاب ¾ ہریانہ اور اُتّر پردیش میں سِکھ برادری کا تہوار۔” لوہڑی“۔ منایا گیا۔”لوہڑی“۔ کے موقع پربڑے چھوٹے سِکھ۔( مرد ¾ عورتیں ¾ اور بچے) ۔ گائیوں ¾ بھینسوں کے اُپلوں اور لکڑی سے الاﺅ روشن کرتے ہیں ۔ گِیت گاتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد بھی دیتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھارتی حکومت ۔”لوہڑی“۔ کے تہوار کے دِن تاج محل کے قریب گائے کے گوبر کے اُپلے جلانے پر پابندی عائد نہ کرتی۔ سِکھوں کی ناراضی تو ایک طرف اگر ۔”گﺅ ماتا“۔ ناراض ہو گئیں تو ؟۔ یہ بھی دھیان رہے کہ اکثر ۔”گﺅ ماتاﺅں“۔ کی رنگت بھی۔”پِیلی“۔ ہوتی ہے اور اُن کا دُودھ بھی پِیلی رنگت کا ۔ اُن کے پِیلے پن کو سفید کیسے کِیا جائے گا؟۔