اقتصادی راہداری کی بھول بھلیاں

ایک اچھا بھلا منصوبہ یکا یک متنازع بن گیا ہے۔شروع میںکسی نے اس کی مخالفت نہیں کی، ویسے حمائت بھی نہیں کی، اس کے حامی نواز شریف تھے یا چینی حکومت۔

میرے خیال میں ا س کے متنازع بننے کی وجہ وہ اندھیرا ہے جس نے اس منصوبے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس اندھیرے کو دور کرنے کی ذمے داری حکومت وقت پر عائد ہوتی تھی،چینی حکومت بھی برابر کی ذمے دار ہے ، فوج بھی اس کے خدو خال واضح کر سکتی تھی کیونکہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ راہداری کی حفاظت کے لئے الگ ڈویژن کھڑا کیا جائے گا، فوج کواس منصوبے کی جزئیات کا علم ہو گا ،تبھی اس نے اتنا بڑا وعدہ کر لیا۔
عام آدمی کو تو ہمیشہ جہالت میں رکھا جاتا ہے ، یہاں کسی پڑھے لکھے کو بھی پتہ نہیں کہ راہداری کس بلا کا نام ہے۔
مجھے تو اس کی بابت خاک برابر بھی علم نہیں مگر میرے کان اس دن کھڑے ہوئے جب وزیراعظم نے اس کے مغربی روٹ کاا فتتاح کر دیا، میں اس سو چ میں پڑ گیا کہ ابھی تو یہ منصوبہ کاغذ پر لکیروں سے آگے نہیں بڑھا ، مگر یکا یک اس کے ایک حصے کا افتتاح بھی ہو گیا، کیا یہ منصوبہ برسوں سے زیر تکمیل ہے۔ جس سڑک کا وزیر اعظم نے افتتاح فرمایا، یہ راتوں رات تو بن نہیں گئی اور اگر راتوں رات نہیں بنی اور اس میں کئی برس لگے تو پھر منصوبے کاا علان اب کیوں کیا گیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ کام چپکے چپکے جاری ہو اور اعلان اب ہوا ہو۔میں آپ کو اپنی معلومات کی رو سے بتاتا ہوں کی جس علاقے کو ہم فاٹا کہتے ہیں ،اور جسے دشوار گزار اور خطر ناک سمجھا جاتا ہے اور جہاں امن قائم کرنے کے لئے ہماری فوج قربانیوں پر قربانیاں پیش کر رہی ہے، وہاں ایسی سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے جو موٹر وے تو نہیں لیکن موٹر وے جیسی ہیوی ٹریفک کا بوجھ سہار سکتی ہیں۔ظاہر ہے یہ سڑکیں کسی منصوبہ بندی کے بغیر تو تعمیر نہیں کی گئیںا ور یہ بھی چشم زدن میں نہیں بنیں۔ان پر کئی برسوںتک محنت صرف ہوئی ہے ۔ان سڑکوںنے پاکستان کو افغانستان اور اس سے ا ٓگے چین اور وسط ایشیائی ملکوں سے مربوط کرنا ہے، یہ منصوبہ کسی نے بنایا ہو گا مگرا سنے قوم کو اعتماد میںنہیں لیا، اور ہو سکتا ہے کہ ا سی طرح کی خاموشی سے اقتصادی راہداری کا سارا کام مکمل ہو چکا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابھی ا س منصوبے کے لئے پہلی اینٹ بھی نہ رکھی گئی ہو، آپ محض ٹیوے لگا سکتے ہیں اور لگاتے رہیں۔
راہداری پر بہت زیادہ اعتراض خیبر پی کے کو ہے اور اس سے زیادہ اعتراضات بلوچستان سے آ رہے ہیں۔ڈاکٹر مالک کے جانے کے بعد تو یہ صوبہ شتر بے مہار ثابت ہو رہا ہے ا ور اب ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے، ڈاکٹر مالک کے ہوتے ہوئے یہ شور شرابہ نہیں تھا، نئے وزیرا علی میر زہری کا تعلق وفاق اور پنجاب میں حکمران جماعت سے ہے ، سو ان کو سمجھانے بجھانے کا کام یہ پارٹی کرتی رہے گی مگر جو لوگ حکمران جماعت سے تعلق نہیں رکھتے اور گھر پھونک تماشہ دیکھنے کے عادی ہیں، ان کو لگام کون دے گا۔سوشل میڈیا پر زہریلا پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ گوادر کی بندر گاہ بلوچستان کی، سمندر کا سارا ساحل بلوچستان کامگر روٹ سارا پنجاب سے ا ور تجارت ساری چین کی ، یہ کس نے فرض کر لیا کہ بلوچ عوام بس منہ دیکھتے رہیں۔
شکوک و شبھات پیدا کرنے میں اس پراپیگنڈے کا بھی ہاتھ ہے جوحکومت کر رہی ہے کہ اس راہداری کے ارد گرد تجارتی ا ور صنعتی زون بنائے جائیں گے۔ یہی پراپیگنڈہ ا سوقت بھی زور شور سے کیا گیا تھا جب لاہور اسلام آباد موٹروے بن رہی تھی۔ لاکھوں لوگ اس موٹروے پر سفر کرتے ہیں مگر کسی نے آج تک کوئی ایک صنعتی زون اس کے ارد گرد نہیں دیکھا ، ہاں چپس اور چائے کی دکانیں ضرور بن گئی ہیں، کیا ان دکانوں کا کاروبار چمکانے کے لئے قومی خزانے کا اربوں کا سرماییہ لگانا ضروری تھا، کوئی اس حکومت سے پوچھے کہ لاہور سے پنڈی تک ا ورا س سے آگے پشاور تک کونسا صنعتی زون نیا بنا ہے۔ کچھ پرانے کارخانے بند ضرور ہوئے ہیں۔موٹر وے صرف گاڑیاں بھگانے کے کام آتی ہے اور موٹروے پولیس جرمانوں کی کمائی کھاتی ہے ، اگر یہی کام راہداری نے بھی کرنا ہے تو اس سے توبہ ہی بھلی۔
اور ایک مخفی فائدہ بھارت کوہو سکتا ہے،ا س نے اس کام کے لئے افغانستان سے مطالبہ کروا دیا ہے۔اگر راہداری کو مروڑ توڑ کر پنجاب سے صرف اس لئے گزارا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے بھارت بھی منسلک ہو جائے تو اس منصوبے کے خالق کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
مجھے یاد نہیںپڑتا کہ اکا دکا سرکاری میٹنگز کے علاوہ کبھی وزیر اعظم، وزیر تجارت، وزیر منصوبہ بندی یا کسی صوبے کے وزیر اعلی نے اس منصوبے پر کوئی پبلک بریفنگ کا بھی اہتمام کیا ہو، میںنے تو احسن ا قبال کی شکل آٹھ برس سے نہیں دیکھی، آخری مرتبہ انہیں جنرل مشرف سے کالی پٹیاں باند ھ کر حلف لیتے ٹی وی اسکرین پر دیکھا تھا، وزیر اعظم نے اس مسئلے پر کبھی میڈیا بریفنگ کا اہتمام نہیں کیا، ملک کا آئین ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے، اگر حکمرانوں کو اخبارنویسوں کی شکلیں پسند نہیں تو وہ ایک ویب سائٹ پرا س منصوبے کی تفصیلات ہیش کردے ، اور یہ یقین دہانی کروائے کہ وہ ویب سائٹ پر دی گئی تفصیلات سے سر مو انحراف نہیں کرے گی ،ا سکے بعد نہ ہم صحافیوں کو،کوئی گلہ شکوہ ہو گا ، نہ کسی صوبے کی حکومت کو اعتراض کا موقع ملے گا کہ ا س سے سب کچھ چھپایا جا رہا ہے۔
میں اس دھوکے کو کبھی نہیں بھول سکتا جو افغان جہاد کے ٹھیکداروںنے ہمیں یہ کہہ کر دیا کہ اس جہاد کے ذریعے ایسا وقت آئے گا کہ ہم ناشتہ پشاور میں، دوپہر کا کھانا کابل میںاور رات کا کھانا سمرقند میں کیاکریں گے، یہ خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا، اگرچہ ہم ایک افغان جہاد کے بعد دوسرا افغان جہاد بھی کر چکے ہیں، کون جانتا ہے کہ اقتصادی راہداری کے خواب کن تاریک بھول بھلیوںمیں بکھر کر رہ جائیں۔
ایسا ملک جہاں لاہور میں بننے والی اورنج ٹرین کے حتمی روٹ کا کسی کو علم نہیں،وہاں میر ثناء اللہ زہری سے مجھے ہمدردی ہے۔وہ بے چارے ایک عالمی روٹ کے بارے میں ناحق پریشان ہو رہے ہیں۔وہ روٹ جسے آئندہ پندرہ برسوں بعد مکمل ہونا ہے ،اس کی فکر زہری صاحب کے پوتوں کو ہونی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...