ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی بھی ٹیکنالوجی متعارف کروانے سے پہلے اس سے آگاہی کی بھرپور مہم چلائی جاتی ہے۔ لوگوں کو اسکے استعمال کے طریقوں اور افادات و نقصانات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح نہ صرف نئی ٹیکنالوجی کا استعمال مئوثرہوتا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات بھی کم سے کم ہو جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جب یہی ٹیکنالوجی ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں پہنچتی ہے تو یہ فیشن اور سٹیٹس سمبل بن جاتی ہے۔ اشرافیہ اسکا جو معیار سیٹ کر دیتی ہے وہ اسی معیار کے مطابق استعمال ہونے لگتی ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال چند سالوں میں بہت بڑھ گیا ہے۔ جبکہ اسکے درست استعمال کے بارے میں لوگوں میں شعور اور تربیت کی شدید کمی پائی جاتی ہے ، جسکی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی سمت درست رکھنے کیلئے حکومت یا کسی بھی ادارے کی طرف سے اب تک کوئی موئثر قدم نہیں اٹھایا گیا تھا۔ حال ہی میں سائبر کرائم بل منظوری کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے، تاہم اس کی کئی شقیں مبہم اور متنازعہ ہیں۔ جہاں لوگوں کوسوشل میڈیا کے استعمال اور سائبر کرائم اور انکی سنگینی کا شعور ہی نہیں وہاں اس مبہم اور متنازعہ بل کو پیش کرنا حکومتی اور سیاسی مفادات کے حصول اور جلد بازی کے سوا کچھ نہیں۔ وقت اور حالات کا تقاضہ تو یہ تھا کہ لوگوں اور خاص طور پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو بھی انکی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جاتا۔ اس مقصد کیلئے باہمی احترام کے فروغ ، مہذبانہ اختلاف رائے، گالم گلوچ اور الزامات کے کلچر کے خاتمے اور اخلاقی تربیت پر آگاہی سیمینار حکومتی سطح پر منعقد کروائے جاتے۔ ایک ضابطہ اخلاق متعین کیا جاتا اور تمام لوگ جو سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں ان کو اس کا پابند کیا جاتا، اسکے بعد سائبر کرائم بل پاس کیے جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تاہم وقت کی اس اہم ضرورت کو سمجھتے ہوئے گزشتہ دنوں ’’سائرن پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام سوشل میڈیا کانفرس منعقد ہوئی۔ جس کا ایجنڈا سوشل میڈیا کی اہمیت کو اجاگر کرنا ،سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو انکی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا اور سائبر کرائم بل میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو بھی شامل کرنا اور اس میں موجود آزادی اظہار رائے پر قدغن لگاتی شقوں میں ترامیم کروانا ہے۔ یہ کانفرنس اس حوالے سے یقینا بارش کا پہلا قطرہ ہے کیونکہ اس سے پہلے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور صحافیوں کو کبھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا نہیں کیا گیا۔ اسکا نفرنس میں اسد کھرل، عمران خان، اجمل جامی، فرید رئیس ، اسد اللہ خان ، مسعود رضا، سید فواد رضا، ذوالفقار راحت، فرحان خان ورک، ڈاکٹر عائشہ ، محمد عثمان مختار، انیتہ الیاس سمیت کثیر تعداد میں صحافی برادری کے نمائندگان، تمام جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہان اور طالب علموں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ محمد اکرم چوہدری چیئرمین سائرن پاکستان کا یہ اہتمام بلا شبہ ایک مثبت قدم ہے جسکے تحت انھوں نے سائبر کرائم کے بارے میں مختلف آرا کے اظہار کیلئے ایک پلیٹ فارم مہیا کر دیا۔ سائرن پاکستان کے چیف آرگنائزر رضی طاہر نے جب اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی تو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کانفرنس اس قدر اہمیت کی حامل ہو گی اور اتنی متاثر کن ہو گی۔ اس وقت ہمارے معاشرے کو اسی طرح کے مثبت سوچ کے حامل افراد اور تنظیمات کی ضرورت ہے۔ ایسے پروگرامز منعقد کروانے سے منفی سوچ اور رویوں کی حوصلہ شکنی اور مثبت اور مفید رویوں کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔ نظریات اور آرا کی ہم آہنگی سے اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے اور قومی مفادات کے حصول کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔ کانفرنس میں سپیکرز نے قومی تشخص کو ابھارنے ، اسلامی اقدار اور روایات کو فروغ دینے، سوشل میڈیا کے ذریعے انتہا پسندانہ نظریات اور رویوں کی حوصلہ شکنی کرنے اور باہمی احترام کے رویوں کو فروغ دینے پر زور دیا۔ آخر میں 8نکاتی قرارداد پر اتفاق بھی ہوا۔ سوشل میڈیا نہ صرف رائے عامہ جاننے کا اہم اور مئوثرذریعہ ہے بلکہ اسکے ذریعے قومی شعور کی بیداری اور جذبہ حب الوطنی کے فروغ کا بھی کام لیا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے سوشل میڈیا پر ایکٹو لوگوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ کانفرنس بلا شبہ اپنی جگہ نہایت اہمیت کی حامل ہے لیکن اس سلسلے کا یہ پہلا قدم ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اسی پلیٹ فارم سے سوشل میڈیا کو فرقہ وارانہ ، انتہا پسندانہ ،غیر اخلاقی اور منافرت پر مبنی مواد سے پاک کرنے ، باہمی محبت، احترام ، رواداری اور امن کو فروغ دینے، الزامات اور کردار کشی کی بجائے اختلاف رائے اور تنقید کے تقاضوں اور اسلوب کو متعارف کروانے کیلئے بھی کانفرنسیں منعقد کی جائیں گی اور ان کا دائرہ تعلیمی اداروں تک بھی بڑھایا جائیگا۔ لیکن یہ صرف اجلاسوں تک محدود نہ رہیں بلکہ اسے طلبہ کے مزاج اور شعور کا حصہ بنانے کیلئے ان امور پر مبنی مواد کو نصاب کا حصہ بنانے کیلئے بھی کوشش کی جائے۔ مجھے امید ہے کہ ’’ سائرن پاکستان‘‘ کا ادارہ اس حوالے سے مئوثرکردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سائرن کے علاوہ یقیناً کئی اور ادارے بھی اس میدان میں مصروف عمل ہوں گے ،انھیں اپنی جدوجہد کو مئوثراور توانا بنانے کے لییاپنی کاوشوں کو مربوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ان کوششوں سے سوشل میڈیا کے حوالے سے لوگوں کے رویوں میں تدیلی دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن اس کیلئے اس سلسلے کو چلتے رہنے اور حکومت اور سول سوسائیٹی کے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے۔