باسٹھ تریسٹھ ، سینیٹر سراج الحق ، سپریم کورٹ کا حسن ظن

ایم ڈی تاثیر نے یہ شعر تحریک پاکستان کے دنوں میں کہا تھا۔
تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے
مسلم لیگ کے دامن میں حضرت قائد اعظم کی جامہ زیبی کے ساتھ ساتھ مولانا حسرت موہانی کا فقر بھی موجود تھا۔ مالی پاکیزگی دونوں شخصیتوں کا طرہ امتیاز رہا۔ مجلس احرار سے آواز آئی ، ہم سے چندے کا حساب نہیں رکھا جاتا، جنہیں ہم پر اعتبار ہے صرف وہی چندہ دیں، دوسرے بیشک ہمیں چندہ نہ دیں، حساب کتاب ندارد، ادھر حضرت قائد اعظم چھوٹی موٹی رقم کی بھی رسید بھجواتے، اپنے دستخطوں کے ساتھ، اب میں حسرت موہانی کے بارے میں کیا لکھوں گا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھ کر قلم توڑ دیا۔ ” ساست کوئلے کا کاروبار ہے۔ جس میں سبھی کا ہاتھ تھوڑا بہت کالا ضرور ہوتا ہے، سوائے حسرت موہانی کے “۔ اللہ اللہ ! پھر یہ گدڑی پوش فقیر ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں اوروں سے کتنا آگے آگے چلتا تھا۔ جن دنوں مہا تما گاندھی بھی درجہ نو آبادیات کی بات کرتے تھے ۔ حسرت موہانی نے اس زمانے میں بھی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا۔ پورے ہند سندھ میں حسرت موہانی پہلے آدمی تھے جنہوں نے مکمل آزادی کا نعرہ لگایا۔ کانگریس کے احمد آباد والے سیشن میں حسرت موہانی نے مکمل آزادی کی قرار داد پیش کی۔ لیکن بھرے پنڈال سے ایک آواز بھی ان کی حمایت میں بلند نہ ہوئی۔ انہیں اس کی پرواہ بھی کب تھی، اس باغیانہ رویے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ سو عمر قید و بند میں بسر ہو گئی۔ اپنے گھر کم رہے جیل میں زیادہ، ایک مصرعہ میں کیا اپنی پوری داستان لکھ دی، ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی، با کمال شاعر تھے، غزلیں عشقیہ کہتے۔
تنہائی کے یہ دن ہیں تنہائی کی یہ راتیں
اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں
رنگ قبا میں مل گئی خوبی ءجسم نازنیں
اورر بھی شوخ ہو گیا رنگ تیرے لباس کا
اب یہ لکھنا بھی ضروری کہ ان کی محبوبہ ان کی بیوی تھی، اپنے عشق کو بھی انہوں نے شریعت کی حدود سے بھٹکنے نہیں دیا، انہوں نے اپنی شاعری میں سے سالت مآب کی خدمت میں بھی بہت کچھ نذر کیا۔
بے مایہ سہی لیکن شاید وہ بلا بھیجیں
بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھ سوغاتیں تحریک پاکستان کا یہ بہادر سپای جنگ جیت کر بھی ہندوستان رہ گیا، وہاں رہ جانے والے مسلمانوں کے حقوق کی خاطر لڑنے مرنے کیلئے، اختلاف نہیں حضرت قائد اعظم سے بھی ہو جاتا تھا۔ حق بات کہنے سے کبھی نہ چوکتے، ایک بڑے آدمی کی مصلحت آمیز خاموشی گناہ صغیرہ نہیں گناہ کبیرہ ہے۔ تمہید لمبی ہو گئی، ہم ذکر کرنا چاہتے ہیں باسٹھ تریسٹھ کے حوالے سے سینیٹر سراج الحق امیر جماعت اسلامی کا ، حسرت موہانی کی کہانی ہم نے اسلئے چھیڑی کہ سینیٹر ساج الحق کی ظاہری سادگی ، ذاتی دیانت اور کرایہ کے مکان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یار لوگ انہیں حسرت موہانی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ لیکن جناب وہ کچھ اور تھے ، سینیٹرسراج الحق جاگیردای ٹھاہ کا نعرہ ضرور لگاتے ہیں لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان میں بہادر عابد منٹو کے ساتھ کھڑے ہونے کی سکت نیں پاتے، اس دور نگی چال کا علامہ اقبال کے نصف مصرعہ درویشی بھی عیاں، میں مکمل مضمون موجود ہے۔ ان دنوں پوری قوم کی سپریم کورٹ کی طرف نظریں ہیں۔ وہاں جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ پانامہ لیکس کے مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے ایک مرحلے پر جسٹس عظمت سعید نے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری سے مخاطب ہو کر کہا کہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کا اطلاق سبھی ممبران اسمبلی پر ہوتا ہے، اگر باسٹھ تیسٹھ لگا تو صرف سینیٹر سراج الحق ہی بچیں گے۔ ان کے سوا کوئی نہیں بچے گا، عمران خان بھی نہیں، عمران خان کا تاریخی جواب کیا شاندار ہے، کوئی بچے یا نہ بچے ، پاکستان ضرور بچنا چاہئے۔ اگلے روز عدالت عظمیٰ میں بنچ کے سر براہ جسٹس سعید کھوسہ نے باسٹھ تریسٹھ کے متعلق آبزرویشن واپس لیتے ہوئے تسلم کیا کہ انہیں یہ آبزرویشن نہیں دینی چاہئے تھی، انہیں ندامت ہے اور وہ اپنے الفاظ واپس لیتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے سینیٹر سراج الحقق کے بارے میں الفاظ واپس لنے کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا موصوف آئین کے باسٹھ تریسٹھ پر پورے اترتے ہیں؟ جس روز اخبارات میں جسٹس عظمت سعید کی سینیٹر سراج الح کے بارے آبزرویشن شائع ہوئی، اسی روز ہمارے مہرباں کالم نگار اسلم خان کا نوائے وقت میں ایک کالم بھی شائع ہوا تھا۔ انہوں نے لکھا ” اب ومی اسمبل کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے اجلاس میں جب اسلامی موضوعات کی تحقیق کے نام پر لئے جانے والے پلاٹ کو سی ڈی اے کے عملے سے ملی بھگت کر کے کمرشل کروانے کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد جیسے ” نیک نام صالحین“ پر طنز کے تیر چلائے گئے ہیں تو پاکباز قاضی حسین احمد یاد آتے ہیں۔ اسطرح مسجد اور مدرسے کا ایکڑوں پر محیط پلاٹ اور پچاس کروڑ روپے مالیت کی عمارت ایک سیون اسٹار مخلوط تعلیم دینے والی یونیورسٹی کو بالکل مفت دے دی جاتی ہے تو قاضی صاحب اور بھی یاد آتے ہیں۔” انہیں قاضی حسین احمد زیادہ موجودہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی وجہ سے یاد آ رہے ہیں۔ ہماری سو سائٹی بہت بری ہو چکی ہے۔ برے لوگوں کی وجہ سے کم اور نیک لوگوں کی مجرمانہ خاموشی کے باعث زیادہ ۔کیا امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الح، پروفیسر خورشید احمد والے اس مسئلے پر اپنی چپ توڑتے ہوئے اپنی جماعت کی پوزیشن واضح کریں گے۔ پروفیسر خورشید کو یہ پلاٹ جماعت اسلامی کے باعث دیا گیا تھا۔ پروفیسر صاحب کو جماعت اسلامی اب بھی اثاثہ سمجھتی ہے۔ اسلام آباد میں قطبہ ہاﺅسنگ سوسائٹی کے معاملات بھی جماعت اسلامی کیلئے عزت کا باعث نہیں۔ یہ سوسائٹی صالحین کے لئے بنائی گئی ہے۔ یہ سوسائٹی تو نہ بن سکی لیکن نہایت ” لیاقت“ سے چند صالحین کو امیر کبیر بنانے کا بندوبست ضرور ہو گیا۔ لیکن بیچارے متاثرین قرطبہ ہاﺅسنگ سوسائٹی کچھ علاج ان کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟

ای پیپر دی نیشن