میرے آئینے سے جوہر نکلتا کیوں نہیں؟

Jan 16, 2018

قومی خودداری اور خود مختاری کیلئے قومی یکجہتی کی فضا کا قائم ہونا ازبس ضروری ہے۔ سیاسی بساط پر فریقین اپنے اپنے مہرے آگے بڑھا رہے ہیں اور ہر سیاسی جغادری ’’ہیرو‘‘ خود کو ملک و قوم کے تمام زخموں‘ دکھوں‘ پریشانیوں اور آزمائشوں کا مداوا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس گھمبیر صورتحال میںجب امریکہ پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے‘ کچھ لوگ احتجاج کی کالیں دے رہے ہیں‘ کچھ لوگ جلسوں پر جلسے کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت اور اپوزیشن آزمائش کی اس مشکل گھڑی میں ایک صفحے پر ہوتے تاکہ امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک تک یہ پیغام جاتا کہ پاکستانی قوم اہم قومی ایشو پر ایک ہے۔ ان کا یہ اتفاق و اتحاد حادثاتی نہیں بلکہ قومی ضرورت کے اس فہم و شعور کا عکاس ہے جس کا احساس پاکستان کے ہر شہری کوبڑی شدت سے ہے۔ دنیا بھر میں امریکہ کے اس رویہ سے کہ اس نے اپنے پرانے دوست پاکستان کو جھٹک کر بھارت سے پینگیں بڑھا لی ہیں۔ امریکہ کے بار ے میں عجیب و غریب تبصرے شروع ہو گئے ہیں جس طرح امریکہ کو اپنی فوجی ضروریات کے حوالے سے اور اپنی ترقی اور استحکام معیشت کے حوالے سے ہر قسم کے اقدامات کی آزادی ہے اسی طرح اگر پاکستان نے اپنی قومی ترقی اور ملکی استحکام اور معاشی بہتری کیلئے پاک چائنہ اکنامک کوریڈور معاہدہ کر لیا ہے تو اس سے امریکہ کی ناراضی بے محل‘ غلط اور بے جا ہے کیونکہ پاکستان ایک خودمختار اور خوددار ملک ہے۔ امریکہ اگر ماضی میں پاکستان کی مالی امداد کرتا رہا ہے تو وہ سب کچھ اس کی اپنی اغراض کا شاخسانہ تھا۔ پاکستان نے کب اس سے امداد طلب کی بلکہ امریکہ نے پاکستان کو اپنی اغراض کا خود نشانہ بنایا اور اپنے مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا۔ پاکستان ایک آزاد اسلامی فلاحی ریاست ہے اور یہ ملک اپنے قیام کے پہلے دن ہی سے اپنا ترقی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالات جیسے تھے‘ حالات جیسے بھی ہیں اپنی اصل منزل کی طرف پاکستان بہرحال بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کی اصل منزل خودمختار‘ خوددار‘ اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا نمونہ بننا ہے۔ پاکستان نے دفاعی استحکام کیلئے ایٹمی قوت ہونے کا عزم کیا۔ اﷲ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے آج پاکستان ایک اعلیٰ درجہ کی ایٹمی قوت کا شاہکار ہے۔ اب اگر پاکستان نے ایک معاشی طور پر مستحکم ملک بننے کا تہیہ کر لیا ہے تو انشاء اﷲ بہت جلد پاکستان ایک بہترین‘ اعلیٰ درجہ کی معاشی قوت بن کر دنیا کے سامنے آنے کو ہے۔ اس ضمن میں چائنہ جس بے مثال اخلاص سے اپنی دوستی کا حق ادا کر رہا ہے وہ اہل پاکستان کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے۔ دوستی ایسی ہوتی ہے نہ کہ ایسی کہ دوست کو غلام سمجھ لیا جائے اور ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں گاجر کی پالیسی کے مطابق حکمیہ انداز میں مشورہ کی بجائے زبردستی کا طریقہ اختیار کر لیا جائے۔ کیا کسی مہذب ملک کو یہ زیبا ہے کہ وہ دوسرے دوست اتحادی یا تعلق رکھنے والے ملک کو ’’نوٹس‘‘ پر رکھ لے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ امریکی رویہ نے پاکستان کی پوری قوم کو بڑا مایوس کیا ہے۔

1971 ء میں جب ہندوستان پاکستان کو دو لخت کر دینے پر تلا ہوا تھا اس وقت بھی امریکہ کی طرف سے پاکستانی قوم کو عظیم مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ امریکی بحری بیڑا‘ بحیرہ عرب میں موجود ہونے کے باوجود پاکستان کی مدد کو نہ آیا۔ امریکہ کے تماشا بنانے کے اس قبیح لمحے میں پاکستان نے عظیم سبق سیکھا کہ امریکہ ناقابل اعتبار ہے۔ اگر امریکہ اپنے ماضی پر ایک نظر ڈالے تو اسے خود بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اس نے دنیا بھر میں بے وفائی‘ ظلم و زیادتی‘ لوٹ مار‘ طاقت کے بے جا اور ناجائز استعمال اور دنیا بھر کے مالی وسائل پر قبضہ کر لینے کا جو چلن اختیار کیا اس کی وجہ سے اب اس کے دوست کم اور ہوائی دوست زیادہ ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انسان کے دل میں دوسروں کے لئے جتنا خلوص ہوتا ہے اتنا ہی اسے دوسرے دوستوں کی طرف سے بھی موصول ہوتا ہے۔ امریکہ شاید سمجھتا ہے کہ دنیا کا چالاک ترین ملک ہے اور اس نے سپر پاور ہونے کا جو مقام حاصل کیا ہے اس کی وجہ اس کی بدمعاشی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سی آئی اے پوری دنیا میں سازشوں کے جال بنتی پھرتی ہے۔ حکمرانوں کو بلیک میل کرتی ہے۔ دہشت گردی پھیلاتی ہے اور روایتی جنگوں کا سامان مہیا کرتی ہے۔ عراق‘ شام‘ ایران‘ کویت اور دیگر اسلامی ممالک کو لڑانے کے لئے اس نے جس قدر جھوٹ‘ حسد‘ لالچ اور انسانی کمزور جذبوں کو استعمال کیا ایسا شاید ہی کبھی ماضی میں ہوا ہو۔
امریکی مکاری‘ سفاکی اور ظلم و ستم سے بچنے کے لئے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ ایسے لوگ‘گروہ یا طاقتیں جو امریکی آلہ کار ہو سکتی ہیں ان پر کڑی نظر رکھنی ہو گی۔ ملک و قوم کے وقار‘ سربلندی اور ترقی کے لئے نئے دوست اور راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ بہتر ہے اپنی تمام پالیسیاں مفادات کے گرد نہیں بلکہ اعلیٰ اسلامی اقدار کے گرد ترتیب پائیں۔ عدل و انصاف سے بہتر چلن کوئی نہیں ہو سکتا۔ اخلاص‘ خدمت‘ نیکی‘ سچائی‘ مساوات‘ امانتدار‘ ایمانداری‘ احسان‘ ایثار‘ اعلیٰ پائے کی ایسی اقدار ہیں جن پر چل کر ہی ہم خود کو ایک سچی مسلم قوم کے طور پر منوا سکتے ہیں۔ وقتی مفاد‘ لالچ‘ انتقام یا کسی بھی منفی جذبے کا شکار ہو کر ہم صرف اپنا راستہ اور منزل کھوٹی کریں گے جو کہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ پاکستان کی منزل ایسا نظام معاشرت ہے جس میں ہر امیر ‘ غریب یکساں اور برابری کی بنیاد پر ایک دوسرے کو بھائی چارے کی عزت سے ہمکنار کر سکے۔ جتنے ادارے پاکستان میں اپنے اپنے فرائض‘ خدمات اور کردار سر انجام دے رہے ہیں ان کو اپنے اپنے کردار کا تعین عین عدل و انصاف کے مطابق وسیع العمل حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر کرنا چاہئے۔ اگر ہم نے خود ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر صرف اسلامی تعلیمات کے گرد نہ ترتیب دیا تو ہماری شناخت متاثر ہونے کے خدشات پیدا ہو جائیں گے اور ہم چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم ہو جائیں جو کہ قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد سے غداری کے مترادف عمل ہو گا کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم سب نظریہ پاکستان کے فروغ کے لئے ایمرجنسی کی بنیادوں پر کام کریں۔

مزیدخبریں