ہماری بے حسی!

مکرمی! کس قدر بھیانک اور اندوہناک امر ہے کہ ہم اپنے کمسن پھولوں کو مسئلے جانے سے بچانے میں بْری طرح ناکام ہیں۔ جب کوئی واقعہ وقوع پذیر ہوچکا ہوتا ہے تو پھر ہم صرف انگڑائی لیتے ہیں مگر حرکت میں پھر بھی نہیں آتے اگر نظامِ اسلام قائم ہوتا تو کیا کسی کو ایسا قبیح فعل کرنے کی جرآت ہوتی؟ قطعاً نہیں۔اگر ایک چور کے ہاتھ کٹ چکے ہوتے تو دوسرا چور چوری کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ور زانی کی سنگساری پر دوسرے کو ایسے خیال سے ہی کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوتا۔ ہم نے قیامِ پاکستان کے وقت اپنے رب سے کئے وعدہ کی نہ صرف خلاف ورزی کی بلکہ توہین کی اور آج تک کالے انگریزوں نے گورے انگریزوں کے سات تختیوں کے قانوں کو آسمانی صحیفہ بنا کرسینے سے چِمٹا رکھا ہے۔دلِ فِگار پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے کوئی اور حادثہِ جانگداز نہیں گزرا؟ اِسی قصور میں ایک ہی سال میں بارہ کمسن پھولوں کو بولے کْتوں کی طرح بھنبھوڑا گیا مگر ہم بے حس قوم کی بند آنکھیں نہ کھلیں۔ ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘… ہم اس قدر بے حس ہو گئے ہیں کہ ہماری حافظِ قرآن بیٹیاں قبروں میں بھی محفوظ نہیں ! ’’حذر اے چیرہ دستاں کہ سخت ہیں قْدرت کی تعزیریں‘‘ (میاں محمد رمضان ٹاؤن ٹاؤن شپ لاہور)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...