عالمی سازش اور بند گلی

سانحہ قصور ہو یا سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور ہو یا سانحہ بلدیہ ٹائون کراچی ہو، ان پہ در پہ سانحات نے قوم کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے اور اسکے ساتھ ہمارے جغرافیائی حالات خاص طور پر ہمارے چاروں اطراف سرحدیں غیرمحفوظ خاص طور پر بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ ہم بسااوقات حالتِ جنگ میں رہتے ہیں۔ ایک طرف ہمارے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں‘ ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی ہمارے جغرافیائی دشمنوں اور نظریاتی دشمناں سے برسرِ پیکار رہتی ہیں۔ آئی ایس آئی کا دنیا بھر میں ایک منفرد مقام حاصل کرنا ایک طرف تو ہمارے لئے باعثِ طمانیت ہے مگر جس طرح ہر دوا کے سائیڈ ایفکٹس ہوتے ہیں اس طرح آئی ایس آئی کی کامیابیاں بھی ہمارے لئے وبال جان بن کر رہ گئی ہیں۔ ہمارے سب سے زیادہ انٹیلی جنس حریف امریکن سی آئی اے کو یہ ہضم نہیں ہو پا رہا کہ وہ اس وقت دنیا میں سپر پاور کی حیثیت رکھتا ہو مگر عالمی درجہ بندی میں اس انٹیلی جنس ایجنسی کا نمبر دوسرا یا تیسرا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آئی آیس آئی کو سرنگوں کرنے کیلئے سی آئی اے نے اپنے ساتھ بھارتی ’’را‘‘ اور اسرائیلی ایجنسی ’’موساد‘‘ کو ساتھ ملا کر پاکستان کے خلاف اندرونی اور بیرونی محاذوں پر کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ امریکن اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا پورا ادراک ہے کہ تھرڈ ورلڈ کا رکن ملک اگر امریکن آشیر باد کے بغیر نیوکلیئر بم تخلیق کرسکتا ہے تو وہ امریکن خواہشات کے برعکس اسے استعمال کرنے کی بھی استطاعت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد ایک سوچی سمجھی عالمی سازش کے تحت پاکستان کو کمزور کرنے کی کارروائی شروع ہوئی۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے تھنک ٹینکس نے ہر ممکنہ طریقے سے پاکستان کو اس جنگ کی بھٹی میں جھونکنا چاہا مگر یہ ہماری آئی ایس آئی کی بہتر صلاحیتوں کی بنیاد پر ہم اس آگ کا ایندھن بننے سے محفوظ رہے۔ 

قارئین! آج اس جنگ کو شروع ہوئے سولہ سال بیت چکے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی حتیٰ الوسع کوششوں کے باوجود پاکستان کی سالمیت مضبوط عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس سارے عرصے کے دوران ہمیں ایک سو بیس ارب ڈالرز کا مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا جبکہ تقریباً ایک لاکھ سویلین اور دس ہزار عسکری جوان اور آفیسرز شہادت کے رتبہ کو پہنچے اور ان پندرہ سالوں میں ہماری ترقی کی شرح رفتار شدید متاثر ہوئی جس کا تعین کھربوں میں کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک یقیناً یہ ڈپلومیٹک عیاشی برداشت نہ کرسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پورا انفراسٹرکچر نیٹو کے ٹرالوں کی آمدورفت سے شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، ہم نے صرف دس ارب ڈالرز کے عوض اپنا کئی سو ارب ڈالرز کا نقصان کرلیا۔ پاکستان کو ایک نان نیٹو اتحادی کا درجہ ملا مگر آج پندرہ سولہ سال بعد ایک امریکن صدر نے احسان فراموشی کے اپنے ہی کئی ریکارڈ توڑتے ہوئے پاکستان سے پھر ڈومور کا مطالبہ دہرایا ہے۔ راقم کے گزشتہ دو عشروں سے امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگان سے آفیشیل مراسم رہے ہیں۔ میں نے اس دوران ایک لابیسٹ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں ہیں مگر موجودہ صورتِحال کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے بھی میرا پاکستان کی وزارت خارجہ کو مخلصانہ فری مشورہ ہے کہ امریکہ جس بند گلی میں ہمیں دھکیلنا چاہتا ہے ہمارا عزم اسے انکار کی صورت میں جواب دے سکتا ہے۔ آج کی امریکن حکومت ماضی کی امریکن حکومتوں سے اس لئے مختلف ہے کہ موجودہ دور میں اقوامِ متحدہ کیلئے امریکی سفیر نِکی ہیلی اور امریکن سفیر برائے نیو دہلی سمیت درجنوں بھارتی نژاد امریکی حکومت کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں اور ان حالات میں امریکی انتظامیہ سے غیر جانبداری کا خیال رکھنا بھی سیاسی بے وقوفی کے زمرے میں آتا ہے۔ قارئین! میرے اپنے تجربے ، مشاہدے اور تجزیئے کے مطابق جب سے پاکستان نے اپنے کشمیر ایشو کو منجمد کیا ہے تب سے دراصل ہم بھارت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ نہ صرف اندرونی بیرونی محاذوں پر ترقی کی منازل طے کرتا رہے بلکہ وہ معاشی اور سفارتی محاذوں پر ایک نیا طاقتور بھارت ابھر کر سامنے آیا ہے۔ آج کا بھارت اور اس کا وزیراعظم نریندر مودی بنگلہ دیش کے دورے پر جاتا ہے تو وہاں چیخ چیخ کر وہ اعتراف کرتا ہے کہ ہاں 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں انڈین مکتی باہنی اور بھارت عسکری اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ آج بھارت کی اتنی جرأت بڑھ گئی ہے کہ گارگل میں اپنی لاشیں چھوڑ کر بھاگنے والا بھارت آج سی پیک کے مقابلے میں ایرانی بندر گاہ چاہ بہار کا معاہدہ کرتا ہے اور آج انڈین پنجاب میں خالصتان تحریک کے برخلاف بلوچستان میں نام نہاد علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کیا جاتا ہے‘ آج کئی کلبھوشن پاکستان کی گلیوں اور بازاروں میں بارود کی بُو پھیلا رہے ہیں‘ آج بھارتی میڈیا اور بھارتی سیاستدان چیخ چیخ کر اعتراف کر رہے ہیں کہ نوازشریف کو اقتدار سے ہٹانا بھارت کے مفاد میں نہیں اور جب وطن عزیزکی سپہ سالارکارگل اور سیاچن اور مشرقی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ ہر روز کی بنیاد پر برسرِپیکار ہے مگر اسی دوران پاکستان کا ازلی دشمن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ہمارے وزیراعظم کی نواسی کے نکاح کی تقریب میں خصوصی شرکت فرماتا ہے اور آج ہی کے دن جب وطن عزیز کو کرپشن سے صاف کرنے کی ٹھانی جاتی ہے تو بھارتی سرمایہ کار جندل کا پرائیویٹ جہاز اسلام آباد میں اترتا ہے اور پھر پچھلے ڈیڑھ سال کا تسلسل ملاحظہ فرما لیجئے کہ جب کبھی بھی موجودہ حکمران طبقہ کے خلاف کوئی فیصلہ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا ہوتا ہے تو اسی روز ہی کیوں ملک کے طول و ارض میں دھماکے شروع ہوجاتے ہیں‘ اسی روز ہی کیوں بھارتی فوج سیالکوٹ سیکٹر پر اندھادھند بمباری کرکے ہمارے عزم کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب ذرا ملاحظہ کریں غدار اعظم مجیب الرحمن کو محب وطن قرار دے کر کہا کہ میں بھی اس کی طرح باغی ہوسکتا ہوں۔
قارئین! دراصل امریکہ جسے ویت نام اور کوریائی جنگوں کے بعد اب افغانستان میں بھی شکستِ فاش کے شدید خطرات لاحق ہیں اور اسرائیل جو پاکستان کی سلامتی کو اپنی تباہی سمجھتا ہے اور بھارت جسے ہم نہ زندہ اچھے لگتے ہیں اور نہ مرے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ دشمنوں کی یہ تکون پاکستان کو ایک ایسی بند گلی میں دھکیلنا چاہتی ہے جس سے خدانخواستہ واپسی ممکن نہ ہو۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار بلاشبہ قابل تحسین ہے مگر جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ہمیں وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کا بھی تحفظ کرنا ہوگا جس کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں یہ ایک نسخہ کیمیا ہے کہ اپنے گھر کو جراثیم کش دوائوں سے صاف کرو اور باہر سے حملہ آور ہونیوالے جراثیموں کا مقابلہ کرو۔ اس وقت پاکستان اپنی ستر سالہ تاریخ کے سب سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اب شاید سوچنے کا وقت نہیں رہا اور ہمیں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے جیسا کہ محمد شاہ رنگیلانے کہا تھا ’’ہنوز دلی دور است‘‘

ای پیپر دی نیشن