قارئین پچھلے چند روز سے معصوم زینب کے ساتھ درندگی کی خبر نے مارے صدمے کے پوری کو دم بخود کر رکھا ہے آخر ایسے جان لیوا صدمات کا سدباب کیونکر ممکن ہو سکتا ایسے درندوں کو درندوں کے پنجروں میں پھینکا جائے حکومت فوری اقدامات کرے جبکہ ہمیں اس کا ایک ہی حل سمجھ میں آیا ہے کہ جب تک بچوں کی صحیح خطوط پر دین اور مذہب کے مطابق تعلیم، تربیت اور کردار سازی نہیں ہو گی ایسے جان لیوا صدمات کا سد باب ممکن نہیں ہے ابھی کچھ دن پہلے ہمیں بچوں کی تقریب میں صدارت کرنے کا دعوت نامہ ملا۔ تقریب میں مختلف پروگرام تھے سچی بات ہے بچوں کے دکھ بھرے جملوں سے سجے ٹیبلوز دیکھ کر دل پریشان بلکہ بے حد اداس ہوا، بھاری بھرکم بستوں اور بے حد مشکل کورس کے حوالے سے انکے بتائے ہوئے تلخ حقائق سن کر حیرت ہوئی کہ کیا اتنے کم عمر اور قطعی طور پر معصوم دل و دماغ رکھنے والے بچوں پر علم و تعلیم کے نام پر اتنا بھی بوجھ ڈالا جا سکتا ہے کہ ان کی یادداشت و برداشت کی ہر حد سے باہر نکل جائے جو انہیں یہ امر مجبوری اٹھانا پڑے جبکہ آخر کار سود بھی ثابت ہو؟ ہم نے پھول سے بچوں کے چہروں پر بڑے بڑے بیگ اٹھا کر ایکٹ کے دوران ایسی اذیت اور بے بسی دیکھی کہ اپنے دل میں سہم کر رہگئے سوچا خدانخواستہ کبھی وہ وقت نہ آ جائے کہ وہ سیروں بے معنی کتابوں کے بوجھ سے تنگ آ کر تعلیم حاصل کرنے ہی سے بغاوت کر دیں ان کا دل علم ہی سے ہی اچاٹ ہو جائے۔ کیا یہ ہماری تعلیمی پالیسی کی ناکامی نہیں ہے کہ آج سے سو سال پہلے انگریز جس قسم کی پالیسی بنا کر گیا تھا۔ ہم بلا کم و کاسست اسکی اندھی پیروی کرتے جائیں حالانکہ ہمیں بچوں کے دل و دماغ میں راسخ کرنے کیلئے ایسی کتابیں نصاب میں شامل کرنا چاہئیں جو انکے لئے آئندہ تمام زندگی مفید ثابت ہوں علم عملی زندگی میں انکے لئے روشنی کی مینار ثابت ہو کتابیں تعداد میں بیشک کم ہوں مگر ان کا معیار عمدہ ہو ، افادیت زیادہ ہو انہیں ہماری اپنی مذہی اور قومی و ملی اقدار کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کا نصاب اور یونیفارم یکساں ہو تا کہ ابتدائی کچی عمر سے کوئی بھی بچہ کسی بھی سطح پر کسی دوسرے بچے کے مقابلے میں کسی قسم کے احساس محرومی کا شکار نہ ہونے پائے سب کی کردار سازی یکساں انداز میں ہو سکے۔ قارئین ہمیں تو ایسا لگتا ہے محض مغربی تعلیم ہی کی اعلیٰ معیار زندگی کی کسوٹی قرار دینے کیلئے بچوں کو اتنے بڑے بڑے بیگ دے کر اور بیگوں کے ہمو زن بھاری ماہانہ فیس لے کر انہیں مستقل طور پر ذہنی بوجھ اور پریشانی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ زیادہ بھاری بستے زیادہ علم حاصل کرنے کی ہرگز ضمانت نہیں ہیں۔ نہ ہی مشکل کتابوں کی تعداد بڑھا کر بچوں کے دماغ کا پیمانہ بڑا کیا جا سکتا ہے/ دیکھا جائے تو گنجائش سے زیادہ ان پر دبائو ڈال کر انہیں نفسیاتی مریض بنایا جا رہا ہے ان کی کھیلنے اور ذہنی بالیدگی کی عمر موٹی موٹی کتابیں چاٹ لیتی ہیں جبکہ سولز میں آدھا ادھورا پڑھا کر ٹیچرز نے شام کو گھروں میں بچوں کو بلا کر ٹیویشن پڑھانے کو بھی ایک حتمی کاروبار کی شکل دے رکھی ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دو جگہ فیسیں دے کر اور دو جگہ بار بار وہی کتابیں دہرا کر بچے نہ صرف کنفیوز ہو جاتے ہیں بلکہ دوسری صحت مند غیر نصابی سرگرمیوں اور اپنی کردار سازی کیلئے وقت ہی نہیں نکال پاتے رٹا لگا لگا کر پاس ہونا بجا ئے خود علم و تعلیم کا ہر کوئی معیار یا ذریعہ نہیں ہے جب تک معیاری اور حیات بخش علم بچوں کے دل دماغ میں جذب نہیں ہوگی۔ ملک و قوم کے کے مفید و ذہین شہری نہیں بن سکیں گے اس حوالے سے ہماری تعلیم کے ارباب بہت دشار سے درخواست ہے کہ بطور خاصی بچوں کیلئے پہلی کلاس سے لے کر میٹرک تک کے نصاب کا از سر نو جائزہ لیں بھاری بھرکم مگر پھوکے علم سے بھرے بستوں کا وزن کم کیا جائے اور کتابوں کو اس طرح مفید و دلچسپ بنایا جائے کہ بچے خوشی خوشی تعلیم حاصل کریں یہی نازک نازک پھول جیسے بچے در اصل ہمارا مستقبل ہمیں جب تک ہم اپنے حال کا خیال نہیں رکھیں گے ہمارا مستقبل کیطرح روشن ہو سکتا ہے؟
اصل میں ہمارا ہر لمحہ بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے وقف کرنا ہی ہمارا وطن کے ساتھ و نادار ہونے کا ثبوت ہے ایک درخواست اساتذہ کرام سے بھی ہے کہ وہ بھی پوری یکسوئی اور بھر پور خلوص نیت کے ساتھ بچوں کو تعلیم دیں تا کہ وطن کو مضبوط و مستحکم بنیاد میسر آ سکے جبکہ طالب علموں سے بھی یہ کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تعلیمی دور میں انتہائی سنجیدگی سے کام لیں علم جہاں سے بھی ملے ، جتنا بھی ملے، جب بھی ملے اور جس سے بھی ملے حاصل کر یں کیونکہ اس کی تحصیل و تکمیل کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ یہ دائم رواں رواں چشمہ آپکی پیاس بجھاتا رہے گا یہ بیساکھی کی مانند ہے جو آپ کو کسی بھی لمحے کسی بھی سطح پر گرنے نہیں دیتا اور یہی انسانی زندگی کا مقصد ہے کہ ہر انسان ہر لمحہ عظیم تر ہونے کا سوچتا رہے، علم کے نور سے فائدہ اٹھاتا رہے اسکی روشنی میں خود اپنی کردار سازی کرتا رہے۔