پاکستان کے برادر ایران میں شدید مد و جزر ہے، ہم ایرانی مذہبی قیادت کو بار بار مشورہ دیتے رہے ہیں کہ اپنے ہاں کوئی محمد علی جناح یا سر آغا خان پیدا کرو انکا اب نقصان ہو رہا ہے تا حال ہو خاموش مگر آج کا کالم مشرق وسطیٰ کے لئے بھی وقف ہے۔ ابتداء متحدہ عرب امارات سے کرتے ہیں۔ جب سے قائمقام سفیر جناب عبدالعزیز النیادی اسلام آباد آئے تو جو امارات کا سفارت خانہ گزشتہ تین چار سفراء کی طویل خاموشی دانش و اجتہاد اور غورو فکر کرنے والے اذہان سے لاتعلق اور ان سے دور بھاگتا تھا۔ میڈیا سے بھی مردم آزاری تھی۔ مگر جناب النیادی نے ہم سے رابطہ کیا۔ اور زیادہ عربی میں کچھ انگریزی میں اپنا وہ متحدہ عرب امارات کا موقف پیش کیا۔ اسی فضا میں ہم سعودیہ و امارات و بحرین و مصر کے حوالے سے اس اتحاد کے حق میں کالم لکھ رہے تھے جو قطر کی طویل ترین سعودیہ کی خاموش مگر انتہائی زہریلی دشمن حکمت عملی میں مضمر رہی تھی۔ قطر کا ایسا محاصرہ ہوچکا کہ وہ معاشی طور پر بہت زیادہ پریشان ہے۔ حال ہی میں قطر نے امارات پر الزام لگایا کہ اسکے جغرافیئے پر اماراتی طیاروں نے بلا اجازت پروازیں کی ہیں۔ مصر سے بھی رابطہ بحال کرنے کی کوشش کی النیادی کے بعد نئے سفیر محترم جناب حمد ابراہیم الزعابی کی تشریف آوری ہوئی تو آتے ہی جناب النیادی کی گرم کردہ اسلوب رابطہ مہم کو انہوں نے تو بہت تیز کردیا ہے وہ چونکہ فصیح اللسان ہیں، عربی سے کہیں زیادہ انگریزی میں بہت عمدہ تقریر کرتے ہیں۔ ریاستی کرداروں سے بار بار رابطہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک خاتون اور فروٹ فروش لیڈی کی تصویر وائرل ہوئی جو غربت و افلاس سے غرق ہے تو جناب سفیر متحدہ عرب امارات نے اس خاتون سے رابطہ کیا اسکے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اور گھر کے اخراجات فراہم کرنے یک طرف پیش رفت کی ہے۔ ہم متحدہ عرب امارات کے صدر محترم، نائب صدر و وزیراعظم اور ولی عہد کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے جناب الزعابی اور جناب النیادی جیسے اذہان کو اسلام آباد بھیج کر بہت عمدہ سفارت کاری کا ’’بند شدہ‘‘ دروازہ کھول دیا ہے۔ پہلے یہ رابطے عوامی درد مندی، ذاتی طور پر زلزلزوں، سیلابوں، مفلسی و افلاس کے حوالے سے صرف سعودی سفراء اور سعودی بادشاہت یکتا نام تھے۔ مگر متحدہ عرب امارات نے اگرچہ بہت سالوں سے پاکستان میں فلاحی، ترقیاتی، عوامی مفادات کے تعلیمی ادبی اور ہسپتال بنوائے۔ رحیم یار خان میں جانوروں کے حوالے سے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے النیادی خاندان نے تاریخ ساز مالی اخراجات کر کے صحراء کو جنت بنایا مگر ان عظیم کاموں کی تشہیر، تبلیغ متحدہ عرب امارات کے سابق تین چار سفراء ہرگز نہ کرتے تھے۔ جناب نواز المایکی سعودی سفیر ہیں۔ جب وہ ملٹری ٹیچر تھے تو ان کا دفتر اور اس کا انتظام کچھ کچھ سعودی سفیر الزدھرانی کے مد مقابل زیادہ فعال اور مدثر تھا۔ ماشاء اللہ وہ خود اب سفیر ہیں۔ ہر وقت تازہ دم متحرک و فعال اور عوامی رابطہ کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں، پارلیمانی اداروں کے سربراہوں سے مسلسل ملاقاتیں ان کا خاص وصف ہے۔ کاش عمران خان تدبر و فراست کا زیادہ بڑا کردار ہوتے تو سعودیہ کی انکو میسر محبتوں کو سایہ فگن کرتے اور اب فائدے میں رہتے ذرا یمن کی طرف حوثیوں کے ہاتھوں مقتول صدر صالح کے اصل آہنی دست راست انکے بھانجے بریگیڈئر جنرل طارق محمد عبداللہ صالح حوثیوں کی سرکش اور بغاوت کے نتیجے میں قتل ہونے والے ماموں صدر کے المیہ کے بعد منظر سے غائب ہوگئے تھے۔ وہی اصل وارث ہیں مقتول صدر صالح کے اگرچہ ’’ابوراس‘‘ کی زیر قیادت صدر صالح کی پارٹی نے نیا ڈھانچہ بنالیا ہے اور یہ حوثی اتحاد کا حال بن گیا ہے۔ تاہم حوثیوں نے بہت شدت سے مفرور بریگیڈئر جنرل طارق محمود کو تلاش کر کے قتل کرنے کی سعی کی تھی مگر اب وہ جنوبی یمن میں نمودار ہوگئے ہیں۔ شامی صوبہ عندلیب میں بشارالاسد بغاوت کرنی والی اپوزیشن نے نئی کروٹ لی ہے۔ اور شامی حکومت کے خلاف نئی مورچہ پالیسی کا آغاز کردیا ہے۔ ترکی نے امریکی مدد سے آزاد خیال اور بزہم خویش شامی علاقے میں آزاد کردہ جوڑ کو محسوس اور پالینے کے سحر میں مبتلا کردوں پر حملہ آور ہونے کی بات کی ہے۔ صدر طیب اردوان’’سوچی‘‘ میں ہونے والے ’’مکالمے‘‘ کے حوالے سے اور پھر ’’جنیوا‘‘ میں شام کے حوالے ہونے والے احتجاج میں نہ صرف متحرک و فعال کردار ہیں بلکہ ان میں دوبارہ بشارالاسد کی مخفی مخالفت عود کر آئی ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودیہ کو مکمل طور پر بدل دیا ہے۔ رجعت پسند، قبائلی رسم و رواج کو دین اور ثقافت کو شریعت کی طرح نافذ کرنے والے متشدد علماء سے منصب چھین لئے ہیں۔ کچھ کو نظر بند بھی کیا گیا ہے۔ سعودی عورت کو ڈرائیونگ کا حق دیا گیا ہے پہلا خواتین کاروں کا شو روم ریاض میں قائم ہوچکا ہے۔ سنیماء کی زندگی واپس لوٹ رہی ہے۔ پہلے یہ سب کچھ ٹی وی چینلز جو بیرونی دنیا کے سعودیہ میں موجود ہیں …۔ اب سنیماء کے ذریعے سعودی ثقافتی زندگی کو ادکاروں، شاعروں ، دانشوروں، ادیبوں، کہانی نویسوں، فلم میکرز کو اپنے ماحول اور فرض میں ثقافتی ادبی اور عوامی احساسات کی ترجمانی کا مل گیا ہے۔ آرٹ اور فلم ڈراما زندگی کا ہی عکاس ہوتا ہے۔ ولگر ’’اور فحش‘‘ نگاری ناممکن ہوگی۔ چونکہ آل سعود کا شہزادہ یہ سب کچھ ’’سازش‘‘ تصور کر کے اسے نیست و نابود کردے گا۔ ان کا مقصد سعودی عوام اور نوجوانوں کو عالمی منظر نامہ میں فخر سے سر اٹھا کر زندہ رہنے کے لئے اسلوب کے راستے پر ڈالنا ہے۔ بن لادن گروپ سعودیہ کا تعمیرات کے حوالے سے بہت بڑا ثاثہ ہے۔ سعودی حکومت اساس پراپرٹی کی ترقی اور تعمیرات، عظیم سڑکوں کی تعمیر کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ مخالفین نے خبریں پھیلائیں کہ بن لادن گروپ مکمل طور پر قومی تحویل میں لیا جارہا ہے اور اس کے اثاثے اور بینک میں جمع شدہ تمام دولت چھینی جارہی ہے۔ مگر بن لادن گروپ کے ترجمان نے چند روز پہلے والی اس کے قومی تحویل میں لینے کی خبر کی تردید کردی ہے البتہ یہ تسلیم کیا کہ ان کے مدار المہام کو زیر تفتیش لایا گیا تھا۔ البتہ کچھ حصص خود بن لادن گروپ نے حکومت کے سپرد کئے ہیں تاکہ وہ نئی تعمیرات میں بن لادن کے وسیع و عریض تجربے کو مثبت طور پر استعمال کرے۔ کرپشن کے حوالے سے سعودی شہزادوں کے خلاف محمد بن سلمان نے اس طرح شکنجہ کسا ہوا ہے جیسے شاہ سعود کی انتہائی زیادہ غیر اخلاقی اور فضول خرچیوں نے خزانے کو اکثر مقروض کر رکھا تھا۔
شاہ فیصل والا بے رحم اسلوب حکومت ہی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنایا ہے۔ کیا اسکی مخالفت ہونی چاہئے یا بھرپور تعریف؟ فیصلہ قارئین خود کریں۔ شہزادہ ولید تاحال زیر عتاب ہیں۔ انہیں ہوٹل سے جیل منتقل کرنے کی خبریں ہیں۔ سعودی شہزادہ عبداللہ بن سعود بن محمد کو گرفتاریوں پر شدید تنقید کی پاداش میں ملازمت سے برطرف اور ایک دوسرے شہزادے کو گھر کے اخراجات بجلی وغیرہ کے بلوں کی خزانے سے ادائیگی کی بندش پر باغی ہونے پر بند کیا گیا ہے۔ جب سعودی عوام اور اماراتی عوام پر مہنگائی کے اثرات آگئے ہیں تو آل سعود کیوں سرکاری خزانے بدستور عیاشیاں کرے ۔ یہ موقف محمد بن سلمان کا ہے۔