منافق کی پہچان یہ بھی ہے کہ وہ اپنی باتیں اور قول و فعل کو بدلتا رہتا ہے ہمیں اپنی جگہ پر ثابت قدم دیکھ کر امریکہ بم پڑنے لگا۔ جنرل جوزف نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تو یقین دلا دیا کہ پاکستان کے اندر یکطرفہ کارروائی نہیں ہوگی۔ ٹرمپ کے مشیر کو بھی کہنا پڑا کہ امریکی امداد بند نہیں معطل ہوئی ہے‘ تعلقات جلد بہتر ہوجائیں گے‘ ادھر مومن سپہ سالار اپنے قول و فعل پر قائم ہے۔ انہوں نے اعلان کیا امداد بحالی کی درخواست نہیں کرینگے۔ دہشت گردی کیخلاف کارروائیاں جاری رکھیں گے‘ امریکہ نے دھوکہ دیا۔
آج امریکی لب و لہجہ نرم لیکن تقاضا اپنے مفادات کی تکمیل ہی ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ بیان کے ردعمل میں سیاسی و عسکری قیادت کا ایک پیج پر ہونا خوش آئند ہے۔ پاکستانی سمجھتے ہیں دھوکا ہوا‘ سپہ سالار خودداری اور خودانحصاری کیلئے کمربستہ ہیں۔ خطے میں طاقت کیلئے مقابلہ بازی ہے۔ پاکستان نے بہت نقصان اٹھایا چند روز پہلے ٹرمپ نے ہم پر الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا حالانکہ اس نے ہمیں دھوکا دیا۔ ہمارے لئے ایک در بند ہوا تو اور سو در کھل گئے ہیں۔ چین پاکستانی انفراسٹرکچر میں 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے‘ سی پیک وسیع تر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان 50 ہزار جانوں اور کئی ارب ڈالر کا مالی نقصان اٹھا چکا ہے۔ امریکہ کو فضائی اور زمینی راہداری کی بندش کا آپشن موجود ہے۔ اس آپشن کے استعمال سے افغانستان میں موجود امریکی فورسز کو لاجسٹک سہولتوں کی فراہمی بند ہوجائیگی۔ پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ افغانستان میں تاحیات نہیں رہ سکتا‘ خدا کرے پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجود کشیدہ صورتحال عارضی ثابت ہو۔ جہاں ضرورت ہو پاکستان تعاون کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان سے بار بار ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا کرنے کے بجائے امریکہ کو بھارت پر دبائو بڑھانا چاہئے جو خطے میں دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے میں بھارت کا کردار ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری سے ظاہر ہوگیا کہ بھارت دہشتگردی میں ملوث ہے۔ بھارت افغانستان میں امریکہ کی ناک کے نیچے بیٹھا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ امریکہ‘ اسرائیل‘ بھارت اور افغانستان کا ہدف سی پیک منصوبہ ہے۔ نائن الیون سے پہلے پاکستان میں کسی قسم کی بھی دہشت گردی کا وجود نہیں تھا۔ امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان میں شکست کھا چکا ہے۔ افغانستان سے دہشتگرد گروپ پاکستان آکر دہشتگردی کرتے ہیں۔ افغانستان میں 42 ملکوں کی فوجی امداد کے باوجود امریکہ شکست کھا گیا۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ جڑی اپنی 2600 کلومیٹر سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کردیا ہے۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد تمام واقعات کا ملبہ مسلمانوں کے سر ڈال کر مفروضوں اور جھوٹ کی بنیاد پر ایسی جنگ کا آغاز ہوا جس کا اختتام ابھی تک سامنے نہیں آرہا۔
اس جنگ سے دہشتگردی نے اور زور پکڑا اور کچھ نان اسٹیٹ ایکٹرز نے اسے پاکستان میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان امریکہ کو کبھی بھی امداد کی بحالی کیلئے درخواست نہیں کریگا۔ ہمارا بیانیہ ایک ہی ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستانیوں کی قربانیوں کو سراہا جائے۔ افغان شہری مہاجر کیمپوں کو بطور پناہ گاہ استعمال کرتے ہیں اس لئے مہاجرین کی جلد واپسی کا عمل شروع کیا جائے۔ امریکہ ان شرپسند عناصر کیخلاف کارروائی چاہتا ہے جو افغانستان کی سرزمین سے افغانستان میں امریکی اور افغان افواج کیخلاف منظم کارروائی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اگر افغانستان سمجھتا ہے کہ دہشت گرد پاکستان سے آتے ہیں تو کابل کو بارڈر مینجمنٹ کو ترجیحی بنیادوں پر رکھنا ہوگا۔
خطے کا امن افغانستان کے امن سے مشروط ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی افغان دہشت گرد ہے تو اس کی باقاعدہ نشاندہی کی جائے۔ امریکہ پاکستان کی قربانیوں اور کاوشوں کو تسلیم کرلیتا ہے پھر ہم سے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں رہے گا۔ تاہم پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ ٹرمپ اپنی زبان کو لگا دینے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔
سانحہ قصور نے ملک بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ درجنوں سوالات نے جنم لیا۔ معاشرے کی عمومی حالت اور زیادہ کھل کر سامنے آئی کہ نام نہاد مسلمان ایسے ازیل اور شیطان نما انسان بھی ہوتے ہیں جن پر دن میں پانچ بار اذان کی آواز‘ خطبات جمعہ ‘ محافل میلاد سیرت النبیؐ کے جلسے‘ تبلیغی اجتماعات‘ علماء کرام کی رات دن نصیحتیں اور وعظہ ذرا بھی اثر نہیں کرتے۔ اگر ان باتوں کا اثر ہوتا ہے تو ایسی غم ناک غلاظتیں سامنے نہ آتیں۔ زینب کیلئے اتنا زیادہ واویلا‘ شوروغوغا اور احتجاج معاشرے کی بیداری کا ثبوت تھا۔ سرکاری مشینری کو بے حسی‘ صرف پیسے سے پیار اور حکمرانوں کو تسلیاں اور سرکاری خزانے سے بھرے نوٹوں کے لفافے اس سے زیادہ اور کیا ہوتا ہے۔ زینب جا چکی اسکے غم کا کینسر اسکے والدین کے سینے کو چھلنی کرچکا‘ لوگ آئے اور گئے لیکن غم نے امین انصاری کے گھر مستقل ڈیرہ ڈال دیا۔ زینب کی ماں کی زباں پر یہی ہے ’’ساتھ تیرے اب غم رہتے ہیں‘‘ ایسے گھنائونے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے‘ انسانی حقوق کی رپورٹیں اور اخبارات کی فائلیں ہر چیز محفوظ رکھتی ہیں۔ قصور میں دو سال میں درندگی کے ایک درجن واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ تو پاکستان کے ایک ضلع کی بات ہے باقی اضلاع میں بھی درندہ نما انسان بستے ہیں۔ جب کبھی پپو یا زینب شکار کی جائیگی اسی وقت واویلا سامنے آئیگا۔ سیف سٹی پراجیکٹ میٹروز ‘ ہائی ویز ‘ موٹر ویز بجلی سب کیلئے اپنی جگہ سوسائٹی کو درندگی سے پاک کرنے کا کوئی پراجیکٹ سامنے نہیں آیا۔ ویسٹ مینجمنٹ تو کوڑا کرکٹ اٹھانے کیلئے ہے‘ ذہنوں کے کوڑا دانوں کی صفائی کون سی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کریگی۔ تین سال پہلے بلھے شاہ کے قصور میں بچوں کی ننگی تصویروں کا ہولناک سکینڈل سامنے آیا تھا۔ اسے زمین کا تنازع قرار دے کر سپردخاک کردیا گیا۔ زینب گمشدگی کیس میں بھی پولیس کا ٹس سے مس نہ ہونا ریاست کی بے حسی تھی۔ اکیلا وزیراعلیٰ تسلیاں دے سکتا ہے‘ یقین دہانیاں کرا سکتا ہے‘ نوکریاں اور لفافے دے سکتا ہے۔ جنہوں نے نظام کو چلانا ہے انہیں وزیراعلیٰ تو کیا وزیراعظم بھی نہیں جھنجوڑ سکتا۔ پتھر دلوں کا کوئی علاج نہیں۔ ترکی کی طرز پر 2016ء میں ڈولفن فورس بنائی گئی کہ گلیوں‘ بازاروں میں موٹرسائیکل پر سوار نوجوان سٹریٹ کرائم کو روکیں گے‘ ان کی مستعدی کہاں دکھائی دیتی۔ شراب کی بوتل پر نیا لیبل لگانے سے شراب عرق گلاب نہیں بن جاتی۔ اسی طرح پنجاب پولیس کی وردی بدلنے سے پولیس والوں کی سوچ اور مال بنائو اور کمائو کا ہدف تو نہیں بدلا ’’مودبانہ گزارش ہے‘‘ سے کام نہیں ہوتے۔ کرنسی نوٹ وہ درخواست ہے جس پر کسی کی سفارش کی ضرورت نہیں۔ کیا کوئی ایلیٹ فورس کے کارنامے بیان کرسکتا ہے؟ تھانہ کلچر‘ چھترول اور پیسہ ہے‘ پیسہ ہے تو چھترول نہیں۔ آج کیا وجہ ہے کپ ریاستی اداروں پر اعتماد نہیں رہا ہر سائل کو پتہ ہے اسے عدالتوں اور تھانوں میں خواری کے سوا کچھ نہیں ملے گا کیا یہی گڈ گورننس اور انسان دوستی ہے؟