سرینگر(اے این این +آن لائن) مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے اوڑی سیکٹر میں بھارتی فورسز نے مزید6کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا جن پر دراندازی اور جیش محمد سے تعلق کا الزام عائد کیا گیا ہے جبکہ مقامی لوگوں نے بھارتی الزام مسترد کرتے ہوئے لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے ۔بھارتی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہمولہ کے علاقے اوڑی سیکٹر میں بھارتی فورسز نے 6نوجوانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا ہے۔بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوموار کی صبح بھارتی فوج کو انٹیلی جنس اطلاع ملی تھی کہ مبینہ مجاہدین اوڑی کے سرحدی علاقے دو لنجہ میں دراندازی کی کوشش کر رہے ہیں جس پر علاقے کو محاصرے میں لے کر کارروائی کی گئی ۔اس دوران جھڑپ میں 6نوجوان مارے گئے ہیں جن کا تعلق جیش محمد سے تھا۔ شہید ہونے والوں کی شناخت کی جا رہی ہے اور لاشیں ہسپتال منتقل کر دی گئی۔یہ کارروائی انسداد دراندازی آپریشن کا حصہ ہے۔کالیا نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ نوجوان پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں داخلے کےلئے بھیجے گئے تھے جن کا مقصد وادی میں بے امنی پھیلانا تھا۔ترجمان کے مطابق مارے جانے والے نوجوانوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔اس کارروائی میں قابض فورسز کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔وادی میں پولیس کے بھارتی سربراہ شیش پال وید نے بھی کارروائی کی تصدیق کی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں انھوں نے کہا کہ اوڑی آپریشن میں بھارتی فوج کے ساتھ پولیس،سی آر پی ایف اور پیرا ملٹری فورسز نے بھی حصہ لیا ۔جائے وقوعہ سے ایک مبینہ مجاہد کے زخمی حالت میں فرار ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ مبینہ مجاہدین کسی فوجی کیمپ پر فدائی حملے کا ارادہ رکھتے تھے اور بھارت کے یوم جمہوریہ پر کارروائی کا ارادہ رکھتے تھے۔ شہید ہونے والوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس کارروائی پر فورسز کو شاباش دی ہے ۔ دوسری طرف مقامی لوگوں نے بھارتی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارے جانے والے مقامی نوجوان تھے جن کا کسی مجاہد گروپ سے تعلق نہیں تھا۔شہریوں نے شہداءکی لاشیں ورثاءکے حوالے کرنے کا مطالبہ اور قابض فورسز کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ادھر سرینگر کے علاقے حبہ کدل علاقے میں گھر گھر تلاشیاں لی گئیں۔اس موقعہ پر سخت سردی میں مکینوں کو گھروں سے باہر نکالا گیا،اور اپنے صحنوں میں جمع کر کے ان سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ مکینوں کے شناختی کارڑوں کی بھی باریک بینی سے جانچ کی گئی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ انکے موبائل فون بھی دیکھے گئے۔ تاہم بعد میں فورسز اور پولیس اہلکار علاقے سے چلے گئے جبکہ کسی بھی شہری کی گرفتاری کی کوئی بھی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔سی آر پی ایف کے ترجمان راجیش یادو نے بتایا کہ26جنوری سے قبل ہمیشہ اس طرح کی کارروائیاں معمول ہیں۔ انہوں نے فورسز پر تلاشی کارروائیوں کے دوران مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کاالزام عائد کیا ہے۔ دوردرشن کیندر سرینگر میں کام کرنے والی مقامی شہری عارفہ جبین نے کہاکہ پولیس اس کے گھر میں داخل ہوئی۔ فورسز نے الزام عائد کیا وہ جنگجوﺅں کو پناہ دیتی ہے حالانکہ علاقہ میں ایسی کوئی بھی اطلاع نہیں۔ ڈی آئی جی سینٹرل کشمیر غلام حسن بٹ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ ہراسانی اور دھمکی دینے کا کوئی ایسا واقعہ علاقہ میں پیش نہیں آیا ہے۔ ادھر ضلع راجوڑی کے علاقے سندربنی میں مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ایک بھارتی فوجی کو جہنم واصل کر دیا ہے۔ آخری اطلاعات تک علاقے میں قابض فورسز کی کارروائی جاری تھی۔دریں اثنا مقبوضہ کشمیرمیں دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کے سرکاری سکولوں، مدارس اور مساجد سے متعلق حالیہ بیان کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ بیانات ان کا ذہنی خلجان ظاہر کرتا ہے۔ جنرل بپن راوت نے حالیہ بیان میں کہاتھا کہ حکومت کشمیر میں مدارس کو اپنے زیر انتظام لانا چاہتی ہے کیونکہ وہ غلط طور پر طلبا ءکو تعلیم دے رہے ہیں۔ آسیہ اندرابی نے سرینگر سے جاری بیان میں کہا کہ جنرل راوت کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جموںوکشمیر میں آرایس ایس اور بھارتی فوج کی حکمرانی ہے۔ دختران ملت کی سربراہ نے کہا کہ بھارت کشمیر اور برصغیر کی تاریخ مسخ کرنے کیلئے کشمیرمیں طرز تعلیم کو تبدل کرنے کی بھی سازش کر رہا ہے ۔انہوں نے خبردار کیاکہ اگر بھارت اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو گیا تو کشمیری عوام کی شناخت مکمل طور پرمسخ کردی جائے گی۔ جب کہ مقبوضہ کشمےر مےںجموںو کشمیر ماس موومنٹ کی سربراہ فریدہ بہن جی نے دہلی کے لال قلعے پر سترہ سال قبل ہونے والے حملے کے الزام مےں سرےنگر کے اےک نوجوان تاجر بلال کو گرفتارکرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمےری نوجوانوں کا قافیہ حیات تنگ کرنے کےلئے نت نئے بہانے تراشے جارہے ہےں۔ کشمےری تاجروں، طلباءاور بھارتی رےاستوں مےں کام کرنے والے دیگر کشمیریوں کو پرےشان اور ہراساں کرنااےک معمول بن چکا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی وہ اس معاملے میں مداخلت کریں۔
مقبوضہ کشمیر