جب جب وفاقی وزیر خزانہ ٹیلی ویثرن پر اپنا ’’ غیرمعلوماتی ‘‘ پروگرام لیکر آتے ہیں پاکستان کے معصوم عوام انکی ’’اعلی کارکردگی ‘‘کی بناء پر سجدوں میںپڑ کر خیر کی دعا مانگنے لگتے ہیں۔’ غیر معلوماتی ‘‘ اسلئے کہ اپنے گزشتہ دورے کے بعد IMF جسے ہم اپنی معیشت کا آخری سہارہ سمجھتے ہیں انہوںنے ہمارے وزیر خزانہ کے متعلق یہ ہی کہا ہے کہ بات کرتے ہوئے انکے پاس اعداد و شمار نہیںہوتے، میرے خیال میں IMFکے اکابرین کی یہ خوامخواہ کی بات ہے، اسکے باوجود کہ ہمارے دوستوں نے ہماری معیشت کے سہارے کیلئے کسی حد تک مددکی ہے مگر بین الاقوامی مافیا ہمیںIMF کے دروازے پر لے ہی جائے گی۔ اسد عمر انتخابات سے قبل کہا کرتے تھے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کرپشن کررہی ہے جو پیٹرول 45 روپے لیٹر ہونا چاہئے وہ سو روپے سے زیادہ کا بیچ رہی ہے انکا کہنا تھا کہ 45 روپے کے بعد تمام پیسہ ’’کھانے پینے پر خرچ ہوتاہے کہ حرف عام میں کرپشن ہوتی ہے، نواز شریف، شہباز شریف کا خاندان یہ پیسہ کھا رہا ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں کے آج کے اعداد شمار کا جائیزہ لیا جائے توہ کچھ یوںہے کہ ایک بیرل جس میں 159 لیٹر ہوتاہے، بین الاقوامی مارکیٹ کی قیمت نیز دیگر اخراجات ملاکر ہمیں 45.32 روپے کا پٹرتاہے، جس پر ہمارے سیلز ٹیکس، ایکسائز، و دیگر کے بعد اسوقت اسکی ایماندارآنہ قیمت 57.17 روپے فی لیٹر ہے جس میں ہمارے لگائے گئے 26.15 روپے کی ٹیکس شامل ہیں۔ پھر یہ 96 روپے سے کیوں؟ اب نواز شریف اور شہباز شریف کسطرح جیل میں بیٹھے تیل کی قیمت زیادہ لیکر کرپشن کے مرتکب ہورہے ہیں۔؟ انتخابی مہم میں مخالفین کے خلاف نعرہ لگانا، الزام لگانا ایک عام سے بات ہے مگر بلند بانگ وعدوں سے عوام مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ خاص طور پر وزارت خزانہ معیشت اورعوام کے ذہنوں سے کھیلتی ہے، میاںنواز شریف کی گزشتہ حکومت میں جدہ میں وزیر اعظم میاںنواز شریف سے ملاقات میں اسوقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار موجود تھے ان سے ہم نے پوچھا معیشت کی کیا صورتحال ہے ؟ میاں صاحب نے اسحاق ڈار کو آگے کردیا،جنہوں نے پندرہ منٹ بیان کیا، ۵ فیصد،اس میں سے ۰۱ فیصد کو وہاںبڑھا دیا، چار فیصد شرح میں سے تین فیصد یہاں بچا لیا ہے، فلاںپراجیکٹ میں بارہ فیصد کو کنٹرول کرکے تین فیصد وہاںکردیا، یہ تمام نہ سمجھنے والی گفتگوتھی، بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میںمیاں صاحب سے درخواست کی کہ میاں صاحب یہ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تو عوام کی سمجھ میں کیسے آئے گا، مختصر کہہ دیجئے کہ معیشت بہتری کی طرف جارہی ہے ہمیں ڈار کے جواب سے لگتا ہے کہ آپ نے ہمیں ’’ ٓٹرک کی لال بتی ‘‘کے پیچھے لگا دیا ہے۔آج بھی یہ ہی صورتحال ہے مہنگائی اپنے عروج پر ہے پانچ ماہ میں کئی بجٹ آچکے ہیں دل جب بیٹھتاہے جب آخر میں وزیر خزانہ یا کوئی حکومتی زعماء کہ کہتاہے کہ ’ عوام کو ریلف ملے گا ‘‘ بجٹ عوام کی بہتری کیلئے ہوگا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ عوام کی ریلف یہ ملتا ہے کہ مہنگائی میں دو وقت کے بجائے ایک وقت کھائینگے، تو بد ہضمی نہیں ہوگی، ڈاکٹر کے پاس نہیں جائینگے، ڈاکٹر کی فیس بچے گی، یہ ہی عوام کا فائدہ ہے ! تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد سب سے زیادہ اور صاف بات ایمانداری سے وزیر اعظم عمران خان نے کی تھی کہ حکومت کو سخت فیصلے کرنے ہونگے، عوام کو بہتر مستقبل کیلئے کچھ تکالیف اٹھانی پڑینگی، یہ بات نہائت ایماندارانہ ہے باقی وزراء اور تحریک انصاف سے روائیتی انداز میں عوام کو میٹھی گولیاں دینے میںمصروف ہے،خاص طور پر عوام کا اعتماد وزیر خزانہ کے کارناموںسے اٹھ سا گیا ہے۔ بہترہے کہ وزیر اعظم عمران خان وزارت داخلہ چھوڑ کر وزارت خزانہ کی اہم ذمہ داری خود لے لیں کم از کم عوام کو سچی بات تو شائد سننے کو ملے اگر اس میں کوئی U-Turn نہ ہو تو۔کابینہ کے افراد کے بیانات میںمعیشت کے حوالے سے کوئی ہم آہینگی نہیں،مقامی سرمایہ کاری نہیں، عوامی یہ سوچنے پر مجبور ہوچلے ہیں کہ کیا قرض لے لینا معیشت کی بہتری کا پیمانہ ہے ؟؟ کوئی قرض مفت نہیں دیتا یہ قرض اور اسکا سود پاکستان کو پاکستان کے عوام کو ہی چکانے ہیں،، دوستوں سے ملنے والی رقم سے عوام کی زندگی میں کیا سدھار آیا اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، گزشتہ حکومت کی کرپشن کا واویلا کب تک ہوگا ؟ اگرکسی نے رقم واقعی چرائی ہے پاکستان کی اسکے لئے متعلقہ ادارے کام کریں، اگر صورتحال یہ رہی خداناخواستہ تو حزب اختلاف جن کے متعلق وزیر اطلاعات نے کہا ہے کہ اسپغول کا چھلکا کھاکر سویا کریں تاکہ حکومت جانے کے خواب نظر نہ آئیں۔ معاشی صورتحال کی ابتری کی اس صورتحال میںیہ خواب عوام کو بھی آنے لگے تو اسپغول کا چھلکا پاکستان میں درآمد کرنا پڑے گا جس پر اخراجات ہی آئینگے۔ تحریک انصاف کوایک مفت مشورہ، مسلم لیگ دور میں مریم نواز کے معاملات پر جب مسلم لیگی وزراء انکی حمائت میں بولتے تھے تو ان پر الزام تھا، مریم نواز حکومتی عہدیدار نہیں،وزراء کیوں بولتے ہیں انکے لئے، جو یقننا صحیح اعتراض تھا مگر آج وزیر اعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان کے معاملے پر وفاقی وزراٗ اپنے گلوںکو تکلیف دے رہے ہیں تو یہ بھی اسی طرح ٹھیک نہیں جسطرح مریم نواز کے حوالے سے ٹھیک نہ تھا۔
وزارت خزانہ کا مطلب۔ عوام کو لال بتی کے پیچھے لگانا
Jan 16, 2019