اسلام آباد (صباح نیوز) وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خاتمے کے لئے دائر مقدمات کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ ملک میں مروجہ نظام اور اسلامی نظام معیشت میں بہت بڑا فرق ہے یہ ہے کہ موجودہ نظام میں منافع پر ٹیکس ہے جبکہ اسلامی نظام میں اصل رقم پر ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ موجودہ نظام کی مخالفت کرنے والے پہلے ایک مکمل نظام بنا کر پیش کریں تاکہ عدالت معاملے کو آگے بڑھا سکے۔ وفاق اسلامک اکنامک سسٹم کے بارے میں بتائے کہ یہ کیا نظام ہے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل اور سٹیٹ بینک کے وکیل کو ہر صورت پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سٹیٹ بینک کے وکیل پیش نہ ہوئے تو بینک کے سربراہ کو طلب کیا جائے گا۔ چیف جسٹس شیخ نجم الحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی عدالتی بینچ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو سٹیٹ بینک کے وکیل سلمان اکرم راجہ کی عدم پیشی پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہاں موجود ہونا چاہئے تھا کیونکہ ان کے دلائل سے مقدمے کو آگے بڑھایا جانا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 1988ءمیں شریعت آرڈیننس لایا گیا تھا جو 15 اکتوبر 1989ءکو ختم ہو گیا۔ اس قانون کے تحت ایک کمیشن بنایا گیا تھا ۔ اس کمیشن نے دو ماہ میں رپورٹ دینا تھی جس میں اس نے آئین کو اسلامی بنانے کے حوالے سے سفارشات دینا تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کرنا ہے؟ پہلے ریاست بتائے کہ اسلامی نظام کیا ہے۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ یہ کیس نظرثانی کی سطح سے ریمانڈ ہو کر شرعی عدالت میں آیا ہے اس لئے دوبارہ تمام چیزوں کو دیکھنا پڑے گا۔ پہلے ان درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل سنے جائیں اس کے بعد دیگر نقاط پر کیس کو آگے بڑھایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم میں لکھا ہے کہ ان ممالک کے نظام کو بھی دیکھا جائے جہاں سود کے بغیر نظام چل رہا ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعلیٰ سطحی کمیشن نے اگر کوئی رپورٹ دی ہے تو وہ بھی سامنے لائی جائے اور اگر سٹیٹ بینک نے کوئی کام کیا ہے تو بتایا جائے کہ اسلامی نظام معیشت کیا ہے۔ دنیا میں بہت سے نظام آتے رہے ہیں۔ ہمارا کیا نظام ہے اس کی سمجھ نہیں آ رہی۔ سپریم کورٹ کے حکم میں تحریر ہے کہ سٹیٹ بینک میں اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا گیا اس کمیشن نے کیا کیا ہے راجہ ظفرالحق کی رپورٹ میں بہت سی ہدایات دی گئی تھیں ان پر اب تک کیا گیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق ہمیں اسلامی نظام معیشت کے بارے میں بتائے کہ کیا ہے؟ ہم نے مختلف یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز اور سکالرز سے رائے لی ہے جس سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے موجودہ اور اسلامی نظام میں بڑا فرق ہے۔ مروجہ نظام میں منافع پر ٹیکس ہے جبکہ اسلامی نظام میں اصل رقم پر ٹیکس ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔ ایک مکمل نظام نافذ ہے۔ اس نظام کے مخالفین ایک مکمل نظام بنا کر دیں تاکہ ہم مقدمے کو آگے بڑھا سکیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت میں یہ معاملات چلتے رہیں گے تاہم قانون دانوں کو اگر کوئی چیز اچھی لگتی ہے تو اسے اسمبلی میں لائیں اور قانون بنا لیں۔ کیس کی سماعت کے دوران امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما پروفیسر ابراہیم، علامہ ساجد نقوی کے وکیل سکندر گیلانی، تنظیم اسلامی کے وکیل غلام فرید سنوترا، معروف سکالر انور عباسی سمیت دیگر علماءاور وکلاءموجود تھے۔
شرعی عدالت