منگل کو پارلیمنٹ ہائوس کی سب سے بڑی خبر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی ہے ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو کا پچھلے 5ماہ میں نہیں کر سکے وہ وزیر اعظم عمران خان اور وزراء کے ’’جارحانہ‘‘ طرز عمل نے اپوزیشن کو متحد ہونے مجبور کر دیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تیز رفتاری سے اتحاد قائم کرنے کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے اپوزیشن کی جماعتیں تنہا حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں لہذا اپوزیشن جماعتیں جو عدم تحفظ کا شکار تھیں نے متحد ہو کر حکومت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا چیمبر غیر معمولی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا منگل کومیاں شہباز شریف ، آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری سمیت اہوزیشن کی دیگر جماعتوں کا سر جوڑ کر بیٹھنا غیر معمولی بات ہے آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف کے درمیان فاصلے ختم ہو گئے ہیں اپوزیشن لیڈر چیمبر میں اپوزیشن کی قیادت نے اکھٹے ہو کر حکومت سخت پیغام دیا ہے یہ بات قابل ذکر ہے بی ان پی مینگل جو حکومتی اتحاد کا حصہ ہے بھی حکومتی بینچ چھوڑ کر اپوزیشن کے اجلاس میں جا بیٹھی پشتون تحفظ تحریک کے دو ارکان بھی اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت کرنا چاہتے تھے انہوں نے گلہ کیا کہ ہمیں اپوزیشن کے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا بہر حال حکومت کے خلاف اپوزیشن کا وسیع تر اتحاد قائم ہوگیا ہے اس اتحاد کاچار نکاتی ایجنڈا ہے فوجی عدالتوں سمیت قومی معاملات پر حکومت سے بات چیت کے لیے کل جماعتی خصوصی کمیٹی قائم کردی گئی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ جدوجہد پر اتفاق ہو گیا اسی طرح چیئرمین نیب سے ملاقات نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا فنانس بل کے معاملے پر بھی اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دے گی ،عمران خان کو وزارت عظمی کا ووٹ دینے والی بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)بھی اپوزیشن کا حصہ بن گئی ہے اپوزیشن جماعتوں کے دو گھنٹے تک جار ی مشاورتی اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں ۔ منگل کوحکومت نے قومی اسمبلی میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے متعلق ترمیمی بل کی رائے شماری پر شکست کے با وجود بل کو متعلقہ مجلس قائمہ کے سپرد کر دیا جب کہ اپوزیشن نے رائے شماری پر گنتی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اعلان کر دیا کہ ڈپٹی سپیکر کا گھیرائو کیا جائے گااجلاس میں ڈیڈ لاک کی وجہ سے ایجنڈا دھرے کا دھرا رہ گیا قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے ایک بار پھر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں کا ہنگامی اجلاس طلب کرنا پڑ گیا ڈپٹی سپیکر نے اعلان کیا تھا کہ بل کے حق میں 94 جبکہ مخالفت میں 96 ووٹ آئے ہیں لہٰذا بل پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جس پر اپوزیشن نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور رائے شماری کو متنازعہ قرار دے دیا اپوزیشن کے مطابق ان کے ارکان کی تعداد 101 تھی جسے کم ظاہر کیا گیا پرائیویٹ ممبر ڈے کے موقع پر متحدہ مجلس عمل کو رکن عالیہ کامران نے بھی انتظامیہ اسلام آباد ایکٹ 2010 میں مزید ترمیم کرنے کا بل پیش کرنے کی تحریک پیش کی۔ بل میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد کو بڑھا کر گیارہ کرنے اور ہر صوبے کے لیے کم از کم دو ججز کا کوٹہ مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تھی پاکستان مسلم لیگ(ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب حیران کن طور پر اپنی دیگر دو ساتھی ارکان کے ساتھ اپنی نشستوں پر بیٹھی ر ہیں ، حکومتی ارکان نے بھی نشستوں سے کھڑے ہو کر رائے شماری میں حصہ لیتے ہوئے بل کی مخالفت کی ۔ رائے شماری کے نتیجہ کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے سید خورشید شاہ ،سید نوید قمر،سردار ایاز صادق نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر دیا۔ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کا گھیرائو جاری رکھا جس پر ساڑھے بارہ بجے دن قاسم سوری اجلاس کو چھوڑ کر چلے گئے اور دس منٹ تک اجلاس ملتوی کر دیا۔اس دوران سپیکر چیمبر میں پارلیمانی رہنمائوں کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری بھی شریک ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی ایک گھنٹہ تک معطل رہی ڈیڑھ بجے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اعلان کیا کہ پارلیمانی رہنمائوں کے مشاورت سے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے متعلق بل بارے پہلے فیصلے کو ختم کیا جاتا ہے انہوں نے عالیہ کامران کو دوبارہ بل پیش کرنے کی اجازت دی اور متنازعہ رائے شماری کے حوالے سے حکومت نے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا ہے۔
حکومتی طرز عمل نے شہباز‘ زرداری کو ’’ایک‘‘ کر دیا
Jan 16, 2019