بزدل سے بزدل اور گھٹیا سے گھٹیا شخص بھی کسی مرنے والے کی کردار کشی کے لئے اتنے وقت کا تو انتظار کرتا ہے کہ اس کا کم از کم کفن تو میلا ہو جائے،اور اگر آپ اپنے آپ کو رستم زماں سمجھتے ہیں تو پھر کسی شخص کی ذات پر اس وقت حملہ آور ہوں جب وہ خود اس دنیا میںموجود ہو اور آپ کی خرافات کا جواب دینے کی طاقت رکھتا ہو،قبر میں سونے والا کس طرح اٹھ کر آپ کی زبان گدی سے کھینچ سکتا ہے۔ کیسے اپنی صفائی پیش کر سکتا ہے۔ کیسے آپ کو للکار کر کہہ سکتا ہے کہ آپ جھوٹے ہیں ، کذاب ہیں اور آپ کو صرف تہمتیں لگانے کا شوق فضول لاحق ہے۔ مقابلے، مباحثے اور مناظرے ہمیشہ برابری کی سطح پر ہوتے ہیں۔ ورنہ ایک محاورہ ہے کہ کیا پدی کیا پدی کا شوربہ۔ تاریخ انسانی میں کسی شاگرد نے اپنے استاد کو کبھی چیلنج نہیں کیا۔آپ کا نظریاتی یا فقہی اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے پانی پت کا میدان نہیں سجایا جاتا۔شاگرد کے لئے استاد کی حیثیت مانند باپ کے ہے۔ باپ جسمانی طور پر وجود میں لاتا ہے اور استاد روحانی طور پر، علمی طور پر اور فنی طور پر شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔اسے ہر قسم کے ہنر سے آراستہ کرتا ہے،باپ کو زچ کرنے والے بدبخت تو بہت دیکھے مگر کسی شاگرد نے استاد کی پگڑی نہیں اچھالی۔ سقراط کا شاگر دا افلاطون تھا۔ اس کا شاگرد ارسطو تھااورا س کا شاگرد اسکندر اعظم تھا۔ تمام استادوں اور شاگردوںنے جدید منطق اور فلسفے کی گتھیاں سلجھائیں۔ ان میں اختلافی نکات بھی موجود تھے مگر کیا مجال تھی افلاطون کی کہ سقراط کے خلاف کسی بغض کاا ظہار کرے اور کیا ہمت تھی ارسطو کی کہ افلا طون کے مکالمات میں کیڑے نکالے اور کیا جرات تھی اسکندر اعظم کی وہ ساری دنیا کو فتح کرتا پھرا مگر وہ اپنی ساری طاقت، جاہ و حشم کے باوجوداپنے استادوں کی قبروں پر ہل نہ چلوا سکا۔ اسلامی تاریخ میں امام ابو حنیفہ تھے۔ ان کے شاگردوں میں امام ابو یوسف، امام محمد ا ور امام ضفر، ان کی اپنی اپنی فقہ ضرور رتھی مگر کسی نے اختلاف رائے کے اظہار کے لئے کسی کا منہ کالا نہیں کیا۔ منہ کالا کیا گیا توامام انس بن مالک کا جو چالیس برس تک مسند نبوی پر بیٹھ کر حدیث کا درس دیتے رہے۔ ان کے شاگردوں میں صوبوں کے گورنر، تین خلفاا ور کئی چیف جسٹس تھے مگر وقت کے بادشاہ نے انہیں ٹارگٹ کیا اور مجبور کیا کہ وہ جبری طلاق کو جائز قرار دیں مگر امام مالک جانتے تھے کی آج جبری طلاق کو سند جواز مل گئی تو کل کو یہ بادشاہ اٹھاون ٹو بی اور مارشل لا کے نفاذ اور کویت یا شام یا عراق یاا فغانستان پر جبری قبضے کا حق بھی مانگیں گے۔ اس دور اندیش امام نے بادشاہ کی ایک نہ سنی جس پر ان کا منہ کالا کر کے انہیں شہر کی گلیوں میں گھمایا گیا مگر اس عالم میں بھی امام مالک کہتے چلے جا رہے تھے کہ میں انس بن مالک ہوں اور جبری طلاق کو جائز نہیں مانتا۔تاریخ گواہ ہے کہ یہ سلوک ان کے کسی شاگرد ہونے کے دعویدار نے ان کے ساتھ نہیں کیاتھا۔ امام احمد بن حنبل کے کتنے ہی شاگرد تھے۔ امام بخاری ، امام شافعی، امام مسلم ، ان میں سے ہر کوئی اپنے زمانے کا استاد تھا اور ان کے درمیان فقہی اختلافات بھی تھے مگر کسی شاگرد نے اپنے استاد محترم کے سامنے اونچی آواز تک نہیں کی۔ مگر احمد بن حنبل کو کوڑے مارے گئے اور وہ بھی خلیفہ وقت کے حکم پر جو چاہتا تھا کہ امام موصوف یہ فتوی دیں کہ قرآن مخلوق ہے، امام نے یہ فتوی دینے سے انکار کیا ۔ کوڑے کھا لئے مگر اپنی رائے برقرار رکھی، اس لئے کہ وہ قرآن کو خلوق کہہ دیتے تو کوئی ہرزہ سرائی کر دیتا کہ مخلوق کی تو ایک عمر ہوتی ہے اور قرآن کی عمر خدا نخواستہ پوری ہو چکی۔
آج کے شاگردوں کا حال دیکھئے کہ وہ اس انتظار میں رہے کہ ان کے استاد دنیا سے رخصت ہو جائیں اور لوگ ان کے بارے میں بھول بھال جائیں توو ہ ان کی کردار کشی کرنے لگ جائیں۔یہ بھی ان نام نہاد شاگردوں کی بھول ہے کہ مجیدنظامی اس عالم فانی سے رخصت ہو چکے۔ مگر نظریہ بھی کبھی مرتا ہے۔ مجید نظامی تو ایک اسکول آف تھاٹ کا نام ہے۔ ایک فسلفۂ حیات کا نام ہے ، ایک زندہ رہنے والے نظریئے کا نام ہے۔ اور یہ نظریہ پاکستان کی صورت مین زندہ و پائندہ ہے ، کون ہے جو اس نظریاتی مملکت کو روند سکے ،اس کی حفاظت خدا کرتا ہے اور اس وطن کے بیٹے کرتے ہیں۔ وہ نہ پاکستان پر کوئی آنچ آنے دیں گے نہ اس کے نظریئے کا پرچار کرنے والے ا ستاد محترم کی شان پر کسی کوچھینٹے اڑانے کی اجازت دیں گے۔کسی میں ہمت تھی تو مجید نظامی کے کردارا ور افکار پراسوقت انگلی ا ٹھاتا جب وہ دنیا میں موجود تھے۔ ان کے ہاتھ میں قلم بھی تھا، ان کے منہ میں زبان بھی تھی اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کاا سٹیج بھی انہیںمیسر تھا ا ور ٹی وی کیمرے بھی ان پر مرکوز تھے۔ اب اس شخص پر حملہ کیا جا رہا ہے جو خود اپنا دفاع نہیں کرسکتا۔ حکومت کو اکسایا جا رہا ہے کہ ا س کے ا داروں پر قبضہ کر لیا جائے۔ کیا کسی کے ادارے پر قبضہ کرنا کوئی نئی بات ہے۔ کیاممتازدولتانہ نے نوا ئے و قت بند نہیں کیا تھا ۔ اور کیا یہی دولتانہ اسی سال کی عمر میں نوائے وقت کی تین منزلیں پیدل چڑھ کر پروفیسر وارث میر اور میرے ساتھ ایک پینل انٹرویو میں یہ کہنے نہیں آئے تھے کہ وہ اپنی فاش غلطی پر نادم ہیں۔ تاریخ انہیں معاف کر دے اور کیا نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے دفتر پر وزیر اعلی پنجاب منظور وٹو قبضہ کرنے کا شوق پورا نہیں کر چکے۔ انہوںنے ترازو میں تول کر سب سے وزنی اور بھاری بھر کم درباری کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا۔بھٹو نے اپنے دور میں ہزاروں اداروں حتی کہ آٹا پیسنے والی چکیوں پر قبضہ جما لیا تھا ، کیا پاکستانی عوام یا ان اداروں کے مالکان بھوکے مر گئے تھے۔ کیاانگریز دور میں زمیندار اخبار کی باربار ضمانت منسوخ نہیں ہوتی تھی۔ زمیندار مرا نہ مولانا ظفر علی خاں کا ستارہ گہنایا جا سکا۔
پنجابی کاا یک اکھان ہے:
جگا جمیا تے ملن ودھائیاں
وڈا ہو کے ڈاکے مار دا
کیا مجید نظامی انہی جگوں کے نرغے میں تو نہیں آ گئے۔
جگے کچھ بھی تو کر سکتے ہیں۔نوائے وقت کسی کو کیوں چبھتا ہے۔ اس کے نظریئے سے کس کو خوف لاحق ہے۔نریندر مودی تو نظریہ پاکستان سے تھر تھر کانپتا ہے۔ نہرو ، گاندھی،پٹیل،اندرا اور سونیا کو نظریہ پاکستان سے تو چڑ ہے مگر اس نظریئے کے یہ نئے دشمن کس کچھار سے نکل آئے۔یہ جگا شاہی کیوں کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
پنجابی کا وہی اکھان پھر یاد آتا ہے
جگا جمیا تے ملن ودھائیاں
تے و ڈا ہوکے ڈاکے مار دا۔