ملکی بحرانی حالات

Jan 16, 2020

لیاقت بلوچ....جماعت اسلامی

پاکستان، مملکت خداداد اور اسلامی جمہوری ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے آزادی ، وسائل ، جغرافیائی ،زراعت اور انسانی صلاحیتوں سے مالا مال کیاہے۔ اس وقت ملک کو آئینی ، سیاسی ،اقتصادی اور پارلیمانی استحکام کی بجائے انتشار اور بحران در بحران کاشکارکردیاگیاہے۔ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دشمن قوتوں نے قومی سلامتی کیلئے خطرات مسلط کیے ہوئے ہیں ، امریکہ بالخصوص مشرق وسطی میں حیلے بہانوں سے جنگ مسلط کررہاہے۔ لیکن یہ امر پریشان کن اور المناک ہے کہ ملک کااندرونی شیرازہ بکھراہواہے ۔ سیاست ،حکومت اور ریاست کا باہم مفاداتی ٹکرائو ملک وملت کیلئے ناقابل برداشت مشکلات پیداکررہاہے ۔ جولائی 2018ء کے قومی انتخابات دھاندلی زدہ اور متنازعہ تھے لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف کو حکومت مل گئی ۔ لیکن عملاً جولائی 2018ء سے اب تک وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں یہ حکومت نا اہلی ، ناتجربہ کاری کاشکارہے۔ اسٹیٹس کو،کو نہ ٹوٹنا تھا اور نہ ٹوٹا،گڈ گورننس دینے کے دلفریب نعرے، نعرے ہی رہے اور اب تک ناکام اور آزمودہ گلے سڑے نظام کو بدلنے کاکوئی وژن اور لائحہ عمل نہ سامنے آسکا ہے اور حکومت بُری طرح ناکامیوں سے دوچار ہے ۔ حقیقت میں یہ ناکامی قومی المیہ ہے ۔
حکومت نے ملک کی اسلامی نظریاتی شناخت اور کردار کو بُری طرح مجروح کیا ہے، ریاست مدینہ کا نظام دینے کا اعلان کرکے عملاً مکمل انحراف کا راستہ اختیار کیا ہے۔ معاشرے میں سماجی قدروں کوبُری طرح متاثراور سیاسی و پارلیمانی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب تک آئین کے رہنما اصولوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں قانون سازی کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو منظم منصوبہ کے تحت سیکولرریاست بنانے کے اقدامات جاری ہیں جواسلامیان پاکستان کیلئے کسی طرح بھی قابلِ قبول نہیں ہیں۔
غیر ذمہ دارانہ رویوں اور طرزِ حکمرانی سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کوعملاً مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے،پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کی بجائے آرڈی نینسوں کے ذریعے ایڈہاک ازم مستحکم اور مضبوط کیاجارہاہے۔ ملک کو غیر طبقاتی نظام تعلیم پر استوارکرنے، مدارس کے نظام کے استحکام اور اصلاح اور قومی زبان اردو کے نفاذ کی بجائے اسکے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیاگیاہے۔ عملاً ملک کوآئینی اور پارلیمانی لحاظ سے خطرناک بحران کا شکارکردیاہے۔ اِسی وجہ سے ابھی تک الیکشن کمیشن آف پاکستان میں تقرریاں نہیں ہوپائیں، فوج جیسے قومی اور ناگزیر ادارہ کے سربراہ کی تقرری پر بھی حکومت نے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی انتہا کردی ہے۔اور اب آرمی چیف کی توسیع و تقرری پر نظرثانی کی اپیل صریحاً محل نظر ہے۔ نظر ثانی صرف سیکرٹری دفاع ہی دائر کرتے تو ملک جگ ہنسائی سے محفوظ رہتا۔
عوام کو توقع تھی کہ ماضی کے ناکام اوربدنام طرز حکمرانی کو بدلاجائے گا جس سے اقتصادی حالات بدلیں گے، عوام سکھ کا سانس لیں گے، غریب اور متوسط طبقہ کی حالت سنبھلے گی، لیکن یہ حقیقت خوفناک ہے کہ اس عرصے میں قرضے، سود اور سرکولرڈیٹ کا بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔افراطِ زر، پیداواری لاگت، مہنگائی، بے روزگاری بے قابوہوگئی ہے۔ بجلی، گیس ،تیل، ٹیکسوں کا ہوشربا اضافہ اور آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر قومی اقتصادی نظام میں خوف و ہراس کا عنصر خطرہ بن گیا ہے؛ جس سے تجارت، صنعت اور زراعت کا پہیہ جام ہے۔ قرضوں کا بڑھتابوجھ، اسٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے اقتصادی بحران میں اضافہ کے اشارے قومی معیشت کیلئے جان لیوا ہوسکتے ہیں۔ خودانحصاری اور اسلامی معاشی نظام سے انحراف کر کے 70سال سے آزمائے اور ناکام معاشی حربے عوام کی مشکلات میں اضافہ کا باعث اور حکومت کی ناکامی کا واضح ثبوت ہیں۔ ملک کو اقتصادی بحران کے گرداب سے نکالنا اور عوام کیلئے سہولت کا بندوبست کرنا موجودہ حکومت کے بس میں نہیں ہے۔آئی ایم ایف کی مسلط کردہ معاشی ٹیم کے ہاتھوں اقتصادی تباہی کی ذمہ دارسراسر حکومت ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ’’سب کا احتساب‘‘ قومی مطالبہ ہے ، کرپشن ملک و ملت کیلئے کینسر کی حیثیت رکھتی ہے۔ پانامہ زدہ 436 افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایاجانا سب کے احتساب کا نقطہ آغاز تھا، نیب کو احتساب کیلئے آزادانہ ماحول فراہم کرنے کی بجائے حکومتی دباؤ کے ذریعے سیاسی بندوبست کیلئے استعمال کیاجارہاہے۔ کرپٹ مافیا کو مصنوعی مظلوم بنایاجارہاہے۔ احتساب کیلئے حکومت کے نعرے ، دعوے اور اعلانات خالی ڈھول پیٹنے کے مترادف ہیں۔حکومت سب کے احتساب میں ناکام ہوئی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی ٹیم کی طرح قانونی ٹیم بھی بار بار ناکام ہوئی ہے۔ آرڈی ننس کے ذریعے نیب کے قوانین کو بہتر بنانے کی بجائے کرپٹ مافیا کو نوازنے اور بچانے کیلئے نظام احتساب کا دم نکال دیا ہے ۔ حکومتی گومگو اور ہر لمحہ رنگ بدلتی پالیسی کے باعث کرپشن ،رشوت اور بدعنوانی، بدترین شکل اختیار کرگئی ہیں۔
پاکستان اس وقت خارجہ محاذ پر تنہائی کا شکار ہے،حکومتی خارجہ حکمتِ عملی انتہائی ناتجربہ کاری اور مفاداتی دباؤ کا شکار ہے۔ مشرقی اور مغربی محاذ پر خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ کوالالمپور سمٹ کے ذریعے پاکستان کیلئے آزادانہ باوقار کردار کا موقع حاصل ہوا لیکن اِسے بھی حکومت نے اپنی عجلت اور ناتجربہ کاری سے ضائع کردیا اور پاکستان کی رسوائی میں اضافہ کا سبب بنی۔تقسیم ہند کے فارمولے کیمطابق مسئلہ کشمیر پر پاکستان حق پر ہے، بھارت ، جھوٹ فریب ،ظلم اور عالمی مسلمہ اصولوں کو مسلسل پامال کررہاہے اسکے باوجودحکومت نے ملک کی کوئی متفقہ،قومی کشمیر پالیسی اور مؤثر خارجہ حکمت عملی نہیں بنائی۔مفادات ، لالچ اور کشکول حکمت عملی نے ملک کے سفارتی محاذ کو کمزور ترین کردیا ہے۔ امریکی کیمپ کا قیدی بن کر پاکستان کیلئے نئے سفارتی محاذوں کے دروازے بند کرنے کی کوشش جاری ہے ۔پاکستان کے معتمد اور قابل اعتماد دوستوں کو دور کیاجارہا ہے اسی لیے سی پیک کیلئے خدشات واضح طور پرظاہر اور عیاں ہورہے ہیں۔حکومت خارجہ محاذ پر مکمل طور پرناکامی سے دوچار ہے، غلط سفارتی اقدامات سے پاکستان کو رسوائی، بدنامی ، مفاد پرستی اور ناقابل اعتماد ملک کا عنوان دینے کی ذمہ داری حکومت پرہے۔
حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ پولیس، بیوروکریسی اور ریاستی امور میں ناجائز اور سیاسی مداخلت نہیں کریگی، سرکاری ملازمین کی عزتِ نفس کا تحفظ کیاجائے گا۔عملاً صورتحال یہ ہے کہ کہ نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن شتر بے مہار ہوکر تمام اداروں میں خوف کی کیفیت مسلط کرچکے ہیں، جس سے عملاً سرکاری اداروں میں کام ٹھپ ہے ۔ عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے خواری میں اضافہ ہواہے۔ دوسری جانب سرکاری افسران کی پسند و ناپسند اور سیاسی مداخلت کی بنیاد پر تقرریوں اور تبادلوں، خوف ،گھبراہٹ اورعجلت میں کی گئی اکھاڑ پچھاڑ نے سول انتظامیہ کو مفلوج اور بے بس کردیاہے۔ اسی لیے سول اورحساس اداروں کا ٹکراؤ خوفناک شکل اختیار کررہاہے۔ تبدیلی کے دعویداروںسے یہ بھی توقعات تھیں کہ بااختیار بلدیاتی نظام لائیں گے اور نوجوانوں کو یونیورسٹیز اور کالجز میںاپنا جمہوری حق دیتے ہوئے طلبہ یونین پر سے پابندی ا ٹھالی جائے گی ۔نوجوان طلبہ ملک و ملت کا مستقبل ہیں اُن کو اُن کا جمہوری حق لوٹایاجائے ۔ بلدیاتی ادارے قومی سیاست کی اہم ترین بنیاد ہیں،صورتحال یہ ہے کہ حکومت بلدیاتی اداروں کے انتخابات اور نظام کو بااختیار بنانے میںکوئی دلچسپی نہیں رکھتی اور قومی سیاست کو نئی قیادت دینے کے قومی فریضہ سے بھی انحراف کررہی ہے۔ بلدیات اور طلبہ یونینز سماجی سیاسی خدمت و اصلاح کے اہم مراکز ہیں حکومت نے اِنکی تالابندی کرادی ہے۔
زراعت قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس حکومتی عرصہ اقتدار میں زراعت مزید زبوںحالی کا شکارہوئی ہے ۔ گندم،چاول، گنا، کپاس، باغات، اور سبزیوں کے کاشتکار حکومتی عدم توجہی ، مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی کا شکارہوئے ہیں۔حکومت نے آئی ایم ایف شرائط کے سامنے جھک جانے میں ہی عافیت سمجھی اور ساراوقت اور زوراسی پر صرف کیا۔ضرورت تھی کہ حکومت خود انحصاری کاراستہ اپناتی اور خودانحصاری کا راستہ اختیار کرنے کیلئے زراعت پر توجہ دی جاتی جو نہیں دی گئی۔
خواتین ، نوجوان طلبہ وطالبات قومی آبادی، ملک کے استحکام و ترقی کا اہم ترین ذریعہ اور قابلِ اعتماد اثاثہ ہیں، لیکن عمران خان حکومت نے خواتین اور طلبہ کی ترقی ، روزگار، باوقار زندگی کیلئے کوئی ٹھوس اور مضبوط اقدام نہیںاٹھایا اورماضی کی حکومتوں کے ناکام تجربات اور منصوبوں کے نام بدل کر انہیں بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت سے سب سے زیادہ نوجوان مایوس ہوئے ہیں۔
ضرورت ہے کہ قومی قیادت، حکومت اور اپوزیشن غیر سنجیدہ رویئے ترک کرتے ہوئے ملک کودرپیش خطرات اور بحرانوں خصوصاً اقتصادی بدترین صورتحال اور عوام کی حالت زار کا ادراک کریں۔ قومی ترجیحات پر حکومت ، سیاست اور ریاست کا ازسرِ نومتفق ہونا قومی سلامتی کیلئے وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔

مزیدخبریں