میرے پیارے مجیب الرحمٰن شامی اور ڈاکٹر محمد اجمل نیازی!!!!!!

ایثار رانا کی ایک خوبی یہ ہے کہ دوستوں اور بزرگوں کا خیال رکھتا ہے۔ یہاں علمی بزرگ سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ یہ صرف نام کا ایثار نہیں بلکہ یہ ایثار و قربانی کی چلتی پھرتی مثال ہے۔ دوستوں کا خیال رکھتا ہے علمی بزرگوں کی شفقت میں رہتا ہے اور مشکل میں دوستوں کا ساتھ دیتا ہے۔ بہت دنوں سے ایثار رانا سے لمبی ملاقات نہیں ہو رہی تھی۔ چلتے چلتے یا کہیں تقریب میں ملتے تو ضرور لیکن سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی درجہ حرارت میں مستقل شدت کی وجہ سے مہینوں کی باتیں جمع تھیں۔ کل جمع شدہ باتیں ایک دوسرے کے سپر دکی ہیں۔ اس ملاقات کا سبب ہمارے دو پیارے جلسہ عام والے مجیب الرحمٰن شامی اور بے نیازیاں والے ڈاکٹر محمد اجمل نیازی بنے ہیں۔ بہت خوشی ہوتی کہ ہم کسی پرمسرت موقع پر اپنے ان دو پیاروں کو ملتے اور یہ دونوں عظیم شخصیات وجہ ملاقات بنتیں۔ ہمارے لیے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دونوں پیارے علیل ہیں اور ہم کہ جنہیں مجیب الرحمٰن شامی اور ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کو ہنستا مسکراتا دیکھنے کی عادت ہے انہیں بیماری کی حالت میں دیکھنے جانا پڑا۔ ایثار رانا بھی بہت دنوں سے اسی کوشش میں تھے کہ ہم الگ الگ جانے کے بجائے ایک ساتھ جائیں ہماری بھی یہی خواہش تھی۔ گذشتہ روز ہم نے تمام معمول کی سرگرمیاں معطل کیں اور دن کا بڑا حصہ اپنے دو پیاروں کے لیے مختص کر دیا۔ پہلے ہم ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی طرف روانہ ہوئے۔ ایثار رانا ملکی سیاست پر دکھی انداز میں گفتگو کرنے لگے۔ بالخصوص عوام کی تنگ ہوتی زندگی، عام آدمی کی مشکلات، غربت میں اضافہ اور پی ٹی آئی وزراء کی بونگیوں پر وہ خاصے پریشان تھے۔ ساتھ ہی وہ میڈیا انڈسٹری کے بگڑتے حالات، صحافیوں اور اخباری کارکنوں کے مسائل پر بھی پریشان تھے کہنے لگے چودھری صاحب ایہد کیہ بنے گا، مسئلے دا حل کیہ اے۔ ہمارا جواب تھا یار رانا یہ مشکل وقت ہے اور یہ صرف کارکنوں کے لیے ہی نہیں مالکان کے لیے بھی مشکل وقت ہے۔ انڈسٹری کو مسائل کا سامنا ہے ایسا ممکن نہیں کہ صرف مالکان مسائل کا شکار رہیں، صحافیوں اور کارکنوں کی زندگی سکون میں ہو اور ایسا بھی ممکن نہیں ہے کہ صحافی اور اخباری کارکن مسائل کا شکار ہوں اور مالکان بہت خوش اور ترقی کر رہے ہوں۔ یہ گاڑی کے پہیے اور لازم و ملزوم ہیں۔ اس مشکل وقت میں سب کو مل کر حکمت عملی بنانا ہو گی کہ موجودہ حالات کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اور اس تکلیف دہ دور سے باہر کیسے نکلنا ہے۔ سو یہ کہنا آسان ہے کہ سب ٹھیک ہے حقیقت یہی ہے کہ سب کے لیے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔حالات سب کے لیے خراب ہیں مالی طور پر کمزور اس لیے زیادہ پریشان ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس جمع کچھ نہیں ہوتا جس کے پاس تھوڑا بہت ہو وہ بھی چند ماہ میں ختم ہو جاتا ہے۔ میڈیا کا کردار چند ایک واقعات کے علاوہ بہت اچھا رہا ہے اور اس کے ذریعے سے ہم دنیا میں اپنا پیغام بھیجتے اور اپنا مقدمہ بھی لڑتے ہیں آج کے دور میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ میڈیا انڈسٹری کی بقاء اس کی اہمیت اور ملکی ترقی میں اس کے کردار کو دیکھتے ہوئے اس بحران کا جلد خاتمہ اور صحافیوں کے لیے کام کا سازگار ماحول ہونا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس اہم انڈسٹری کو بچانے اور اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔ اتنے میں ہم پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کے دولت خانے پر پہنچ گئے۔ ہمیشہ روایتی لباس میں رہنے والے نیازی صاحب آرام فرما رہے تھے۔ ان کے صاحبزادے پاس موجود تھے جو بیماری میں اپنے عظیم والد کی خدمت کا اہم فرض نبھا رہے ہیں۔ ہم ان کے بیٹے سے نیازی صاحب کی صحت، ادویات و معمولات بارے پوچھتے اور ان کی باتیں کرتے رہے۔ ساتھ ہی ایثار رانا بھی نیازی صاحب کے کالموں کے مقبول جملوں سے اپنی یادداشت کی داد پانے میں مصروف تھے۔ ہم کافی دیر وہاں بیٹھے رہے۔ نیازی صاحب سے گفتگو کا موقع نہ مل سکا لیکن ہم ان کی یادوں کو تازہ اور ان کی ساتھ گذرے اچھے لمحات کو یاد کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔ باہر نکلتے ساتھ ہی کہا یار رانا ایہہ دنیا ایڈی ظالم اے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صرف کالم نگار نہیں ایک استاد بھی ہیں، وہ بزرگ بھی ہیں، بڑے بھی ہیں وہ روشنی دکھانے والوں میں سے ہیں یار کوئی ان کا پوچھنے بھی نہیں آتا۔ اتنی دیر ہم بیٹھے رہے ہیں کسی کا فون تک نہیں آیا۔ ہم کتنے سنگدل ہو گئے ہیں۔ ایک نسل ان کی شاگرد ہے، ایک نسل انہیں سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر جوان ہوئی ہے آج جو وزیر شذیر ہیں یہ بھی کبھی ان کے قارئین ہوتے ہوں گے۔ یہ جو مشیر کبیر ہیں، یہ جو چمچہ گیر ہیں انہیں بھی کوئی خیال نہیں ہے۔ استادوں کی ایسی ناقدری کے بعد ہم روشن مستقبل کے خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ اتنی خدمات کے بعد جب انسان بڑھاپے کی طرف آئے اور اس پر مشکل وقت آ جائے تو ہمیں تو بڑھ چڑھ کر اپنے استادوں اور ملک کی خدمت کرنے والوں کی مدد کو آگے آنا چاہیے لیکن ہمارا معاملہ ہی الٹ ہے۔ ہم بندے کا جوس نکال لیتے ہیں پھر اسے بستر کے حوالے کر دیتے ہیں اور مڑ کر پوچھتے ہی نہیں۔ یہ کیسی بے حسی ہے۔ کسی کی عیادت کے کیے جانا ہمارا مذہبی فریضہ اور اخلاقی فریضہ ہے اور بدقسمتی سے ہم دونوں سے ہی دور ہیں۔ امام صحافت جناب مجید نظامی مرحوم پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی بہت قدر کرتے تھے۔ محترمہ رمیزہ مجید نظامی بھی نیازی صاحب کے طرز تحریر کو پسند فرماتی ہیں۔ سیاسی و ادبی حلقوں میں انکی بے نیازیاں خاصی مقبول ہیں۔ ہم صفحہ تین پر انکی جگہ شائع ہو رہے ہیں یقیناً یہ ان کا متبادل کسی طور نہیں ہے نہ ہم انکی کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ اللہ انہیں مکمل صحت عطا فرمائے اور وہ دوبارہ سے نوائے وقت کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکیں۔ ایثار رانا نے آمین کہا اور اس دعا کے ساتھ ہم خاموش ہو گئے۔اب ہم جلسہ عام والے مجیب الرحمٰن شامی صاحب کی طرف پہنچنے والے ہیں۔ شامی صاحب سے ہمارا تعلق بہت پرانا ہے لیکن تعلقات میں شدت آج بھی نئی نئی دوستی اور محبت کا پتہ دیتی ہے۔ اس طویل رفاقت کا کریڈٹ تو شامی صاحب کو جاتا ہے کیونکہ وہ تعلق جوڑے رکھنے اور ہماری تیز مزاجی کو کھلے دل سے برداشت کرتے ہیں۔ شامی صاحب ایک محنتی، خوش مزاج اور کام سے محبت کرنے والی شخصیت ہیں۔ جتنا کام کر کے لوگ آج تھک جاتے ہیں اتنا کام شامی صاحب وارم اپ میں کر جاتے ہیں۔ میگزین، اخبار اور اب ٹیلی ویژن ہر جگہ انہوں نے محنت اور منفرد کام سے اپنا مقام بنایا ہے۔ ان کا کالم جلسہ عام خاص و عام میں مقبول ہے۔ بڑے بڑے طاقتور ان کے جلسہ عام سے خائف رہے اور اب وہ نقطہء نظر کے ذریعے میدان میں رہتے ہیں۔ لکھتے لکھاتے لکھا ہوا کاٹتے، سوال پوچھتے جواب تلاش کرتے کرتے وہ دل کے مریض ہو گئے اور بات آپریشن تک جا پہنچی۔شامی صاحب کے گھر کتنے ناشتے کیے ہیں کچھ یاد نہیں، شامی صاحب کی علالت کی وجہ سے عدم موجودگی میں جمخانہ میں مخصوص میز ان کا منتظر ہے۔ یہاں یار لوگوں کی محفل لگتی ہے۔ جلد اس میز پر ملکی سیاست پر گرما گرم بحث ہو گی،محفل لگے گی اور شامی صاحب کے تیز جملے سب کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیں گے۔ شامی صاحب کی خوبی ہے کہ جہاں بھی جاتے ہیں گھر بنا کر آتے ہیں اور ہم ایسے ہیں کہ جہاں بھی کسی کے لیے گھر بناتے ہیں وہ ہمیں اس گھر سے نکال کر ہی دم لیتے ہیں۔ شامی صاحب ہر ایک کے لیے قابل قبول اور ہم اتنا ہی لوگوں کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ اس تضاد کے باوجود آج بھی ہماری دوستی قائم ہے تو اس کی وجہ شامی صاحب ہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انہوں نے پرنٹ میڈیا کے بعد الیکٹرانک میڈیا میں بھی اپنی پہچان بنائی ہے۔ ان کے سیاسی تجزیے جاندار ہوتے ہیں۔ ہم ملکی سیاست اور حکمرانوں کے واقعات پر گھنٹوں گفتگو کر سکتے ہیں۔ شامی صاحب کی یادداشت بھی کمال کی ہے۔ وہ جاننے والوں کی خوشی غمی میں شرکت کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ ضرورت کے وقت موجود ہوتے ہیں۔اب ہم جلسہ عام اور نقطہء نظر والے جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب کے دولت کدے پر پہنچ چکے ہیں ڈرائنگ روم میں درجنوں گلدستوں کی موجودگی شامی صاحب کی مقبولیت کا پتہ دے رہی ہے۔ گلدستوں کی تعداد بتا رہی ہے کہ عیادت کے لیے آنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔فون پر بھی دعائیں دینے والے بہت ہیں۔ شامی صاحب سے ملاقات بہت اچھی رہی۔ چہرے پر مخصوص مسکراہٹ انکی زندہ دلی کا ثبوت ہے۔ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ سیاسی غیر سیاسی باتیں ہوئیں۔ جلد صحت یابی کے لیے دعا کی اور انہیں جمخانہ کی ٹیبل کی اداسی بارے بتایا۔ شامی صاحب کہنے لگے بس ٹھیک ہو رہا ہوں، بہتری کی رفتار ملکی ترقی کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے جلد دوبارہ سے آپ کے کلب کا حصہ بن جاوئں گا۔شامی صاحب کی رہاش گاہ سے واپسی پر معاشرے کا دوہرا معیار دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی۔ ایک طرف اجمل نیازی کی عیادت کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے اور دوسری طرف گلدستوں کے ڈھیر ہیں۔ ہم کسی کی خوشی غمی میں شرکت کو بھی ضروریات سے جوڑتے ہیں۔ شامی صاحب سب کی ضرورت ہیں تو حاضریاں لگ رہی ہیں نیازی صاحب بزرگ ہیں تو کوئی جانے کو تیار نہیں ہے۔ ایثار رانا کہنے لگے نیازی صاحب کا شمار ملک کے بڑے کالم نگاروں میں ہوتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ نہ انہوں نے قلم بیچا نہ ضمیر فروشی کی۔ بڑے بڑے فلسفہ جھاڑنے والے نظر آئیں گے لیکن ان کی تاریخ اور حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ دو پیاروں کی عیادت سے جہاں دل کو تسلی ہوئی وہیں معاشرے کی بے حسی نے بہت تکلیف پہنچائی ہے۔ ہم نجانے کن راستوں پر چل رہے ہیں۔ رہنماؤں نے موقع پرستی کے ایسے اعلیٰ معیار قائم کیے ہیں کہ معاشرہ ان کے قدموں پر قدم رکھے جا رہا ہے۔ یہ بہتری اور ترقی کا سفر ہرگز نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ان تمام بیماروں کو جو علاج کی طاقت رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے اور وہ جو گھروں میں ہیں یا ہسپتالوں میں سب کو مکمل صحت عطاء فرمائے ہمارے دونوں پیاروں مجیب الرحمٰن شامی اور اجمل نیازی کو جلد مکمل صحت کی دولت سے نوازے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...