چند روز قبل اسد عمر نے فرمایا کہ تھا کہ کورونا وائرس کی ایک ملین ویکسین یرکیور کر رہے ہیں۔ یاد رہے اسد عمر پاکستان تحریکِ انصاف کے نہایت اہم وزیر ہیں اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ برسوں ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے منصوبے پیش کرتے رہتے تھے اپوزیشن میں رہتے ہوئے چونکہ کرنا کچھ نہیں ہوتا صبح دوپہر شام صرف بیانات جاری کرنا ہوتے ہیں اس وقت لوگوں کو اسد عمر ایک مسیحا معلوم ہوتا تھا۔ چلیں باقی بات بعد میں کرتے ہیں ایک کرونا وائرس ہے بلکہ اب تو کرونا وائرس بھی وائرس پلس ہو گیا ہے شاید یہ وائرس پاکستان تحریکِ انصاف کے وزراء کے دماغوں پر بھی اثر کر گیا ہے اس لیے وہ ہر رقز بیانات بدل لیتے ہیں۔ اب ڈاکٹر فیصل سلطان جو کہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر صحت ہیں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ کرونا وائرس ویکسین حاصل کرنے کے لیے کسی کو آرڈر نہیں دیا۔ یہ تو بالکل ایسے ہی جیسے کسی گھر میں گھنٹی بجے گھر میں موجود بڑے سے کوئی ملنے آیا ہو وہ ملنا نہ چاہتا ہو اور گھر میں سے کوئی باہر جا کر غلط بیانی کر رہا ہو کہ جسے وہ ملنے آئے ہیں وہ گھر پر موجود نہیں ہیں اسی دوران گھر کا ایک بچہ گیٹ کی طرف بھاگے اور بھانڈا پھوڑ دے پھر کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیا ہو رہا ہے۔ اب جو مہمان آیا ہے وہ بڑے کی بات پر یقین کرے یا بچے کی بات کو سنجیدگی سے لے اسے کچھ سمجھ نہیں آتی یہی صورتحال اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل سلطان کے بیانات سے پیدا ہوئی ہے۔ ایک وزیر ویکسین پرکیورمنٹ کی بات کر رہا ہے تو ایک مشیر کہتا ہے کہ اب تک کسی کمپنی کو آرڈر نہیں دیا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے وزراء کے باہمی رابطوں، بات چیت اور ہم آہنگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا پی ٹی آئی کی مختصر تاریخ ایسے لطیفوں سے بھری پڑی ہے۔ میری گذارش ہے کہ وزراء کسی اہم معاملے پر بیان جاری کرنے سے پہلے گھر میں مشورہ کر لیا کریں کہ گھنٹی بجے تو دروازے پر مہمان کو کیا بتانا ہے۔ ویسے یہ اتنے خود کفیل ہیں کہ بھانڈا پھوڑنے کے لیے انہیں کسی بچے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ان کے بڑے بچے نہایت عمدہ و احسن طریقے سے یہ کام کرتے ہیں۔
پنجاب کے ایک وزیر نے لاہور کی گندگی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بریفنگ دی ہے میں نے کہیں سے یہ بھی سنا ہے کہ وہ وزیر کہتے ہیں کہ جلد لاہور سے کچرے کا خاتمہ کر دیں گے حالانکہ ان کا ماضی یہ بتاتا ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں تھوک کے حساب سے گند ڈالتے ہیں جو گنڈ ڈالنے میں مشہور ہیں انہیں صوبائی دارالحکومت کی صفائی کی ذمہ داری دینے کا مطلب ہے لاہور کو ملک کا گندا ترین شہر بنانے کے منصوبے پر کام کرنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر موصوف لاہور کو صاف کرتے ہیں یا پھر گندگی میں کراچی کو پیچھے چھوڑتے ہیں۔ جہاں تک تعلق شہر کی گندگی کا ہے حکومت کئی ہفتوں سے یہ مسئلہ حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر ہیں، لاہور کی سڑکوں پر جا بجا کوڑے کے ڈھیر بتاتے ہیں کہ ملک میں نظام حکومت کیسا ہے۔ ویسے سڑکوں پر نظر آنے والا کوڑا کرکٹ صفائی کے اعتبار سے ہماری سمجھ بوجھ، عقل و شعور اور توجہ بھی ظاہر کرتا ہے۔ سڑکوں، چوراہوں پر نظر آنے والی گندگی ثابت کرتی ہے کہ حکومت تاجدارِ انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی حدیث مبارکہ بھی یاد نہیں رہی۔ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان ہے الطھور شطر الایمان صفائی نصف ایمان ہے۔ کیا دن آ گئے ہیں ریاست مدینہ کے دعویداروں کو احادیث یاد کروانے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔
کرکٹ بورڈ کے نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے گن کر 9 ایسے کھلاڑیوں کو ابتدائی اسکواڈ کا حصہ بنایا ہے جنہوں نے پہلے پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلی۔ کیا دن آ گئے ہیں کہ دو ہزار اٹھارہ سے اب تک پاکستان کرکٹ بورڈ یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکا کہ کسے کھلانا ہے اور کسے ڈراپ کرنا ہے کرکٹ بورڈ بھی عجب منظر پیش کرتا ہے۔ کہیں کوئی بہتر حکمت عملی یا منصوبہ بندی نظر نہیں آتی، لاکھوں کے حساب سے ماہانہ تنخواہیں ملکی و غیر ملکی ضرورت مندوں کو دیے چلے جا رہے ہیں لیکن کرکٹ کے فروغ کے لیے دھیلے کا کام نہیں کر سکے۔ یہ بدانتظامی یونہی چلتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا حال ہاکی سے بھی بدتر ہو جائے گا۔ لوگ ہاکی کو روتے ہیں کرکٹ کو پیٹیں گے۔ پاکستان کا ایک ہی کھیل بچا تھا جس میں بین الاقوامی سطح پر ہماتی شناخت بچ گئی تھی بورڈ کی موجودہ انتظامیہ ناصرف اس شناخت کو ختم کرے گی بلکہ خزانہ بھی خالی کر کے جائے گی۔ نئے کھلاڑیوں کو اسکواڈ میں شامل کر کے بغلیں بجانے والے قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ سینکڑوں کرکٹرز سے کرکٹ کھیلنے کا حق بھی چھینا گیا ہے۔ احسان مانی اور وسیم خان کے پاس کوئی وڑن نہیں ہے۔ ان دونوں نے مل کر ملک کے مقبول ترین کھیل ک مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے۔ یہ کیسا بورڈ ہے دو سال میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کسے کھلانا ہے اور کسے باہر کرنا ہے۔ دو سال میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ ایک ہی شخص کو ایک سے زیادہ عہدے دینے یا نہیں، دو سال میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ چیف سلیکٹر کسے لگانا ہے کسے ہٹانا ہے۔ باتیں آسمان سے تارے توڑنے کی کرتے ہیں اور بازار سے آدھ کلو دہی لانے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
اب آئیں جی ذرا اپنے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی طرف، کیا کمال شخصیت ہیں کسی بھی ادارے کو تباہ کرنے کے لیے اگر کسی کو نہایت باصلاحیت امیدوار کی ضرورت ہو تو غلام سرور خان کی خدمات حاصل کریں آپ کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔ یہ آپ کی توقعات پر پورا اتریں گے۔ یہ ایسے باصلاحیت ہیں کہ اچھے بھلے چلتے چلتے اڑتے اڑتے جہازوں کو بند کروا دیتے ہیں۔ یہ اتنے باصلاحیت اور بہترین پائے کے تحمل مزاج ہیں کہ دنیا بھر سے لوگ برا بھلا بھی کہتے رہیں تو برا نہیں مناتے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے کچھ وزراء تو رج کے نالائق ہیں اور وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ چند دن پہلے مجھے ایک جاننے والا مل گیا کہنے لگا کہ گاڑی قسطوں پر لی تھی کرونا کی وجہ سے قسطیں نہیں دے سکا ڈر ہے باہر نکلوں اور گاڑی پکڑ نہ لیں اس خطرے کے پیشِ نظر گاڑی کہیں چھپا رکھی ہے۔ کوشش کر رہا ہوں کہ کہیں سے پیسوں کا بندوبست ہو جائے قسطیں ادا کروں اور گاڑی چلانے کا قابل ہو جاؤں یہ بات کہتے کہتے ہنسنے لگا اور بولا چودھری صاحب اب میں یہ بات ماضی کی حکومتوں پر بھی نہیں ڈال سکتا ویسے آئیڈیا اچھا ہے۔ پی ٹی آئی کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے کرونا بھی نواز شریف اور زرداری پر ڈالیں اور عوام کو بتائیں کہ ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس سے ہونے والی تباہی کے ذمہ دار ماضی کے حکمران ہیں اس طرح حکومت کو دوہرا فائدہ ہو گا ایک تو لوگ ماضی کے حکمرانوں کو برا بھلا کہیں گے حکومتی ترجمانوں کو نیا موضوع ملے گا وہ مزے مزے کی دلیلیں لائیں گے میمز بنیں گی، کامیڈینز کا روزگار چلے گا۔ حکومت کو سچ بولنے کا عالمی ایوارڈ بھی ملے گا۔ جاتے جاتے کہنے لگا چودھری صاحب کالم میں لکھ دینا ہو سکتا ہے حکومت اتنا اچھا آئیڈیا دینے پر میری قسطیں ہی معاف کروا دے۔
وہ شخص چلا گیا اور میں ٹیلیویڑن دیکھنے لگا پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ملائشیا کے طیارے کہ خبر بار بار چل رہی تھی۔ لیز کے پیسے نہ دینے پر طیارہ ائیر پورٹ پر روک لیا گیا، مسافروں کو اتار دیا گیا اور یوں ملک کے حصے میں ایک اور بڑی بدنامی آئی لیکن حکومت تو شاید ذرا مختلف سوچ رہی ہے کہ "بدنام ہوں گے کیا نام نہ ہو گا" اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ ترین دن ہے۔ اس واقعے کے بعد غلام سرور خان کی ترقی ضرور ہونی چاہیے انہیں کم از کم نائب وزیراعظم بنانا چاہیے کیونکہ جو کام وہ کر رہے ہیں انہیں نشان حیدر کے علاوہ تمام قومی اعزازات دینے چاہییں۔ ملک و قوم کی عزت کو تار تار کرنے والے اس وزیر اور پی آئی اے کے اعلیٰ حکام کو گھر نہ بھیجا گیا تو یہ کسی طیارے کو اڑنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔ بات صرف ماضی کی حکومتوں کی نہیں ہے یہ مسئلہ قومی وقار کا ہے۔ آپ قسطوں پر ایک کار لینے والے سے بھی کم سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ایک ایسا طیارہ جس کا کیس چل رہا ہے، پیسے آپ نے ادا نہیں کیے اور اسے بین الاقوامی روٹ پر بھیج کر اب ناقص العقل دلائل پیش کر رہے ہیں۔ یہ حکومت کی سفارتی ناکامی بھی ہے اور نالائقی و نااہلی کی بدترین مثال ہے۔ پہلے وزیر ہوا بازی جنہیں ہمارے بازار میں ایک چائے والا ناکام خان کہہ کر پکارتا ہے اس نے پائلٹوں والا بیان دے کر دنیا بھر میں فلیگ کیرئیر کو بند کروایا اور اب ملائشیا میں ایک اور بدنامی کا داغ ماتھے پر لگوایا ہے۔ یہ ملک و قوم کی عزت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ طیارے کا روکے جانے اور مسافروں کو اتارنا ایسے ہی ہے جیسے بیرون ملک کوئی پرچم کی بیحرمتی کر دے۔ حکومت اسے ماضی کے حکمرانوں پر ڈالنے کے بجائے اپنے وزراء کا احتساب کرے۔ اس قوم پر کچھ رحم کرے۔ آپ حکومت میں سبز پاسپورٹ کی قدر و قیمت میں اضافے کے وعدے کے ساتھ آئے تھے لیکن آپ کے دور میں نیشنل فلیگ کیرئیر کی ساکھ کو دنیا بھر میں ناقابلِ نقصان پہنچ رہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
غلام سرور خان،پڑھتا جا شرماتا جا،نیا چیف سلیکٹر،کچرے سے بھرا لاہور،1 ویکسین 2 بیان!!!
Jan 16, 2021