اْردو ادب حْسن سے مالا مال ہے، سچ کہتے ہیں کہ ہم خوش قسمت ہیںکہ احمد فراز کے د ور میں زندہ ہیں۔ یوں تو بے شمارشعراء نے الفاظ کی جادوگری دکھائی لیکن احمدفراز اْن شعراء میں شامل ہیں جن کے الفاظ کا جادو آج بھی سرچڑھ کر بولتا ہے۔ اسی لئے جب بھی فراز کا کلام اْٹھا کر پڑھیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا بہار کے پھولوں کی خوشبو سے فضا کو معطربنادیتا ہے۔12جنوری1931ء ، احمد فراز کا یوم ِ پیدائش ہے، احمد فراز کہاں پیدا ہوئے کتنی تعلیم حاصل کی۔ اس سے تو ہر کوئی باخبر ہوگا۔ میں اصل میں اْنکی شاعری پر بات کرنا چاہوں گی۔انہیں1976ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا سربراہ بنایا گیا۔ آپ 2006ء تک نیشنل بک فائونڈیشن کے سربراہ رہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں اْنہیں نیشنل بک فائونڈیشن سے برخاست کردیا گیا۔ احمد فراز نے 1988ء میںآدم جی ادبی ایوارڈ حاصل کیا۔1990ء میں اباسین ادبی ایوارڈ حاصل کیا۔ 1988ء میں اْنہیں بھارت میں فراق گورکھپوری ایوارڈ سے نواز گیا۔اکیڈمی آف اْردو لٹریچر کینیڈا نے بھی اْنہیں1991ء میں ایوارڈ دیا۔ جبکہ 1992 میں بھارت میں انہیں ٹاٹا ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ یوں اْنکی شہرت صرف پاکستان ہی نہیں ایشیائی سرحدوں کو بھی پارکرتی ہوئی ساری دْنیا میں پھیل گئی۔ اْن کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ جامعہ ملیہ بھارت میں اْن پر پی ایچ ڈی کامقالہ لکھا گیا۔ جس کا موضوع احمد فراز کی غزل ہے۔ بہاولپور میں بھی احمدفراز فن اور شخصیت کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔اْنکی شاعری کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگوسلاوی، رْوسی، جرمنی اور پنجابی میں تراجم ہوچکے ہیں۔ شاعری کی پاداش میںکئی بار سزاء کے مرتکب بھی ٹھہرے لیکن یہ سزائیں اْنکی راہ میں حائل نہ ہوسکیں اور وہ اپنے فنی سفر کے ساتھ اپنی منزل کیجانب بڑھتے رہے۔ آج بھی ہزاروں اشعارعوام میں مقبول و معروف ہیں۔
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوئہ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
احمد فراز نے ہر طبقہ فکر کے مزاج کی شاعری کی۔ وطن کیلئے بھی بے شمار نظمیں لکھیں اور رومانوی شاعری میں تو کوئی اْن کا ثانی نہیں۔ بعض شعر تو ضرب المثل کی صورت اختیار کرچکے ہیں اورحوالہ جات میں استعمال کئے جاتے ہیں۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کتابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
سْنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کر دیکھتے ہیں
سو اْس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کر دیکھتے ہیں
شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
میں کب کا جاچکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
اب کس شاعر کا حوالہ دیجئے کہ یہاں تو ایک لمبی قطار میں اشعار اپنی آمد کے منتظر ہیں۔ مگر یہ اشعار لوگوں کے دلوں ہی میں نہیں حافظوں پر بھی نقش ہیں۔ ادب اور معیاری ادب یہی تو ہے کہ لوگ اْسے حفظ کرلیں اور یہ سْخن نوازی وسْخن شناسی سینہ بہ سینہ سفر کرتی رہے۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہوفراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا