پاکستان کے موجودہ حالات میں جب صحافت اور سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی تفریق ختم ہو چکی ہے‘ رئوف طاہر مرحوم ببانگ دہل دائیںبازو کے علم بردار تھے۔ ان کا تعلق اہل صحافت کے اس قبیلے سے تھا جن کا جینا مرنا پاکستان اور نظریۂ پاکستان کیلئے تھا۔ وہ پاکستان کی نظریاتی اساس کا ڈنکے کی چوٹ پر دفاع کرتے تھے۔ مشکلات اور ترغیبات انہیں اپنے طے کردہ راستے سے کبھی ہٹا نہ سکیں۔ وہ ساری زندگی اسلام‘ نظریۂ پاکستان اور جمہوری اقدار کی سربلندی کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ وہ بے مثال عزم و استقامت کے مالک تھے جنہوں نے آمرانہ حکومتوں کیخلاف اپنا قلم بے باکی سے استعمال کیا۔ اس راہ میں قید و بند کی صعوبتیں کبھی انکے آہنی عزم کو متزلزل نہ کر سکیں۔
رئوف طاہر مرحوم کو تحریر و تقریر کی خداداد صلاحیت حاصل تھی۔ صحافت کے میدان میں ساری زندگی گزارنے کی بدولت پاکستان کے تقریباً تمام بڑے سیاسی رہنمائوں سے انکے مراسم تھے۔ سبھی انکے مداح تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ انہیں ازبر تھی۔ مجیب الرحمن شامی کے بقول وہ پاکستانی سیاست کے انسائیکلوپیڈیا تھے۔ رئوف طاہراپنی ذات میں ایک انجمن اور انتہائی متحرک شخصیت کے مالک تھے۔ انکا شمار پاکستان کے انتہائی سینئر اور ممتاز صحافیوں میں ہوتا تھا۔ وہ روزنامہ نوائے وقت‘ روزنامہ جسارت‘ ہفت روزہ تکبیر اور ہفت روزہ زندگی سے بھی وابستہ رہے۔ سعودی عرب میں بھی دس گیارہ سال مقیم رہے اور جدہ سے شائع ہونے والے اخبار ’’اُردو نیوز‘‘ کے مدیر رہے۔ اُنہوں نے پاکستان ریلوے کے ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ کے فرائض بھی بڑے احسن انداز میں نبھائے۔ اپنی حیاتِ مستعار کے آخری برسوں میں وہ روزنامہ دنیا کیلئے اپنا کالم بعنوان ’’جمہور نامہ‘‘ قلمبند کیا کرتے تھے۔
رئوف طاہر نے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے اشتراک سے گزشتہ روز ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں پیشہ ورانہ قابلیت ‘ شرافت اور انسان دوستی کی مرقع اس عظیم نظریاتی شخصیت کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور تھے۔ ریفرنس کی نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے سرانجام دیے جس میں رئوف طاہر مرحوم کے ذاتی دوستوں ‘ اہل صحافت اور اہل خانہ نے شرکت کی۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے اپنے خطاب میں رئوف طاہر مرحوم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک درویش صفت انسان تھے جو اپنے نظریات پر پختگی سے قائم رہے۔ وہ اختلاف رائے کا بھی احترام کرتے تھے اور اپنا موقف دلائل سے پیش کرنے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ آج کل ملک میں نہ تو نظریاتی سیاست نظر آتی ہے اور نہ ہی برداشت اور رواداری کا عنصر دکھائی دیتا ہے۔ معاشرے میں انتہا پسندی فروغ پذیر ہے اور اختلاف رائے رکھنے والوں پر فتوے صادر کر دیے جاتے تھے۔ چوہدری محمد سرور نے آبروئے صحافت محترم مجید نظامی مرحوم کی قومی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی صورت جو نظریاتی شمع روشن کی تھی‘ اس کی ضوفشانی میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ گورنر پنجاب نے شاہد رشید اوران کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس قومی نظریاتی ادارے کو نوجوان نسل پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ مستقبل میں انہوں نے ہی اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اس کام میں وہ ایک مخلص ورکر کی مانند نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کا ساتھ دیں گے۔
ریفرنس میں روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر انچیف مجیب الرحمن شامی‘ نامور سیاسی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی‘ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے چیئرمین خالد محمود‘ سابق صوبائی وزیر تعلیم میاں عمران مسعود‘ پنجاب یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر ‘ روزنامہ دنیا کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی ‘ روز نامہ نئی بات کے گروپ ایڈیٹر پروفیسر عطاء الرحمن‘ معروف دانشور سجادمیر‘ روزنامہ تجارت کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر‘ ممتاز صحافی میاں حبیب اللہ‘ جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد‘ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری اور پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری نے رئوف طاہر مرحوم کے حوالے سے اپنی یادوں کو تازہ کیا جبکہ انکے صاحبزادے آصف رئوف نے سٹیج پر تشریف فرما اکابرین اور حاضرین سے اظہار تشکر کیا۔ ریفرنس کے دوران رئوف طاہر مرحوم کے ذاتی دوست اور سینئر صحافی شہباز انور خان اور محسن فارانی نے انہیں منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ میرے لیے رئوف طاہر مرحوم کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں ہے کیونکہ میرے ان سے نہایت قریبی تعلقات تھے۔ وہ خون بن کر میری رگوں میں دوڑتے تھے۔ وہ اپنے نظریات کا برملا اظہار کرتے تھے تا ہم سیاسی اختلافات کو کبھی ذاتی اختلافات نہ بننے دیا۔ انہوں نے جس انداز میں زندگی بسر کی‘ اس کا نچوڑ یہ ہے کہ اختلاف کا اظہار نیک نیتی سے کیا جائے اور توڑنے کی بجائے جوڑنے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کا بطور خاص شکریہ ادا کیا جو رئوف طاہر مرحوم کے انتقال پر انکے بچوں کو پرسہ دینے انکے گھر واقع لیک سٹی پہنچے اور جن کی کوشش سے لیک سٹی انتظامیہ وہاں رئوف طاہر مرحوم سے ایک سڑک منسوب کر رہی ہے۔ انکے اوصاف کو بیان کرنا اور ان کی اولوالعزمی کی داستانیں قلم بند کرنا بہت مشکل ہے۔ شہباز انور خان کے بقول …؎
وہ جس سفر میں مرا شریکِ سفر تھا انور ؔ
اب اس سفر کی کتھا سنانا ‘ بہت ہے مشکل
رئوف طاہر کا غم بھلانا بہت ہے مشکل
Jan 16, 2021